مرے دوستا مجھے سب دلوں کا سراغ ہے
اسے جام, جم ہی سمجھ جو میرا ایاغ ہے
کوئ عطر بیز خمار سا میری نیند میں
میرا خواب ہے کہ ترا بدن کوئ باغ ہے
مجھے خوف اس لیئے بھی نہیں کسی رات کا
میری گودڑی میں جو لعل ہے وہ چراغ ہے
یہ وہ قصر ہے جہاں تجھ کو کوئ رسائ نئیں
کہ یہ دل نہیں میری جان میرا دماغ ہے
مری خوش نگاہی نہ جانے کون سی لے میں ہے
کہ مرے لیئے تو یہ ہنس ہے یہ جو زاغ ہے
میں رکا نہیں کسی خوش جمال کو دیکھ کر
کہ گلاب کے تو قریب ہونا بھی داغ ہے
میں کہاں وجود و عدم کے بیچ میں آ گیا
کہ نہ وقت ہے میرے پاس اب نہ فراغ ہے