مجھے وہ یاد ہی کچھ اس حساب سے آئی
کہ اس کے سینٹ کی خوشبو گلاب سے آئی
وہ آنکھیں چوم چکے تھے وہ ہونٹ چکھ لئے تھے
اسی لئے ہمیں بد بو شراب سے آئی
وبا نے قبریں بڑھائیں تو ہوش میں آئے
ہمیں سمجھ بھی خدائی عذاب سے آئی
ہم اس کے امتی ہو کر بھی ترش کیونکر ہیں
مٹھاس شہد میں جس کے لعاب سے آئی