کیسی تقسیم تھی ،سب ایک ہی گھر کے نکلے
تیرے دربار سے جو جھولیاں بھر کے نکلے
جن کی دستار کو میں چوم لیا کرتا تھا
وقت بدلا تو وہ دشمن مرے سر کے نکلے
ہم کو درکار تھی چھاؤں سو عطا کی اس نے
بعد میں لاکھ بھلے شجرے شجر کے نکلے
بکھری زلفوں سے چھپاتے ہوۓ چہروں کے نقوش
گدڑیوں والے حسیں چاند نگر کے نکلے
بد دعا دیتے ہوۓ اشک بہاتا تھا بہت
ہم ترے شہر کے مجذوب سے ڈر کے نکلے
ہاۓ وہ لوگ کفن کا جنہیں ٹکڑا نہ ملا
ہاۓ وہ لوگ جو زندان سے مر کے نکلے