چاہے تو سر کا تاج بنا یا غبار کر
بس لازمی سمجھ کے مجھے اختیار کر
میں نے سنا ہے وہ بھی کسی کا ہے منتظر
جس نے مجھے کہا تھا مرا انتظار کر
حاکم فصیلٍ شہر سے ٹکرا کے مر گیا
جانے لگا تھا شہر کو جوے میں ہار کر
تکلیف کچھ تو ہو گی تجھے بھی ستم ظریف
اے دل میں رہنے والے مرے دل پہ وار کر
ممکن ہے کوئ اس کے تعاقب میں چل پڑے
جاؤں گا اپنے گھر تری خوشبو گزار کر
اب سوگوار ہو کہ ترے رد کئے ہوہے
زندہ اٹھے ہیں صبح شب غم گزار کر