میں سمجھتا تھا کہ پابند ِ انا رہتے ہیں
یار میرے مرے ہونے سے خفا رہتے ہیں
تُو نے اس واسطے چھوڑا تھا کہ مر جائیں گے
دیکھ لے یار کہ ہم تیرے سوا رہتے ہیں
نسلِ شاہی کے محلاتِ مقدس ہیں ادھر
جن کے پچھواڑے سبھی خواجہ سرا رہتے ہیں
میں اسے کاٹ تو ڈالوں گا مگر سوچتا ہوں
وہ پرندے جو اسی پیڑ پہ آ رہتے ہیں
عشق یونہی تو نہیں ہے ترے ملتان کے ساتھ
شمس کے شہر میں کچھ شمس نما رہتے ہیں