وہ جس نے دیکھ لیا تیرا مسکرانا بھی
اسے لبھا نہ سکے گا کوئ خزانہ بھی
تمہارے بعد اگر کوئ لے؛ تمہارا نام
ہمیں دلاسا بھی لگتا ہے تازیانہ بھی
میں بے گھری میں بھی یکتا و بے مثال رہا
مجھے ملا نہ کوئ مجھ سا بے ٹھکانا بھی
اب آ بھی جا در و دیوار بین کرتے ہیں
ترس گیا تجھے میرا غریب خانہ بھی
نہ رو دنوں کی کمائ پہ اس کو دیکھ ذرا
جسے ملا نہیں صدیوں کا محنتانہ بھی
میں ڈر رہا ہوں کہیں رائیگاں نہ ہو جاؤں
کچھ ایسا حادثہ ہے تیرا چھوڑ جانا بھی
کھلم کھلا ہے چراغوں کی حوصلہ شکنی
فصیلٍ شب پہ شکستہ دیا جلانا بھی
تو جس طریقے سے بچھڑا تھا اس کے بعد مجھے
حرام ہے تیری صورت کا یاد آنا بھی