کالم

فکر امروز

عزیز میرانی

Verdict slammed, endorsed by legal eagles along party lines(Dawn : 31 Jan)

یہ عمران خان کے کل سنائے جانے والے سائیفر کیس کے فیصلے پر آج کے انگلش کے موقر روزنامے ڈان کی فرنٹ پیج کی تبصرہ نما خبر ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے پوری پاکستانی قوم کی اکثریت کی سیاسی بنیادوں پر تقسیم اتنی گہری ہوگئی ہے کہ ان کے درمیان بحث ایک دوسرے پر طنز و تشنیع سے شروع ہوکر، گالی گوچ سے ہوتی ہوئی ایک دوسرے کے گریباں تک پہنچ جاتی ہے۔ ایسے لگتا ہے ہم اپنی آزادانہ آراء کو مالی و دنیاوی مفادات کا گروی رکھ چکے ہیں یا اپنی زندگی کی ناکامیوں اور محرومیوں کا مداوا سمجھنے لگے ہیں۔ سیاست دانوں، جج، جرنیل اور افسر شاہی کی بدنیتی، لوٹ کھسوٹ، اخلاقی گراوٹ اور نام نہاد حب الوطنی تو پہلے ہی دیکھ چکے، اب پیش خدمت ہے وکلاء برادری کی پیشہ ورانہ قابلیت اور اخلاقی زوال کا احوال۔
وکلاء برادری کو بھی وہی فیصلہ درست نظر آتا ہے جو ان کی اپنی اپنی پارٹی کے حق میں یا فائدے میں ہوتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ڈان اخبار کی آج کی مذکورہ بالا خبر ہے۔
یعنی وکلاء کی *ماہرانہ قانونی رائے* صرف اسی پارٹی کے حق میں ہوتی ہے جن سے ان کی سیاسی وابستگی اور مالی مفادات وابستہ ہوں۔ حق اور انصاف پرستی، غیر جانبداری، پیشہ ورانہ مہارت، قانون و انصاف پسندی اور اپنی ذات اور اشرف المخلوق ہونے پر فخر شجر ممنوعہ کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔ ہمارے تعفن زدہ سسٹم میں اعلی عدلیہ کے ججز اسی مصلحتوں کے شکار طبقے سے منتخب کئے جاتے ہیں۔ جو کاشت کرنے سے گندم کی فصل کی توقع نہی کی جاسکتی۔
اس لئے عدلیہ کے کردار، غیر جانبداری و دیانت داری کا معیار اور جرات مندی کا اندازہ لگانے کے لئے ہمیں کسی ارسطو یا بقراط جیسی فہم و فراست کی ضرورت نہی۔
تاہم یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس طرز عمل کے لئے مذکورہ طبقات کے تمام ارکان و ممبران یا پورے اداروں کو مورد الزام ٹھیہرانا پرلے درجے کی حماقت، تعصب و کم نظری اور غیر دانشمندی ہوگی۔ اس تاریک دور میں بھی وکلاء اور ہر ادارے میں ایسے روشن چہرے موجود ہیں اور وہ بلاشبہ اکثریت میں ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے ایسے لوگوں کو اپنی ایمانداری، اصول پسندی، شرافت، خودنمائی سے نفرت، اور حب الوطنی کی وجہ سے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ اور انہیں موثر مقام اور آواز سے محروم کردیا گیا ہے۔ جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اچھے لوگوں کو ایک دوسرے کی حمائت اور حوصلہ افزائی سے معاشرے کی اگلی صفوں میں آنا چاہیے۔
اپنے اپنے حصے کی شمع جلانا اپنی جگہ اہم ہے لیکن اب ان سب کو باہمی اتحاد کے ذریعے آگے آکر سورج بننا ہوگا اور پورے پاکستان کو روشن کرنا ہوگا۔
اللہ تعالی ایسے طبقات کو ہمت، جرات اور عزیمت عطاء فرمائے۔ اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com