چینی انجینیئرز پر حملے کے دو ’ماسٹر مائنڈ‘ فرار کی کوشش میں مارے گئے
تھلوچی (مانیٹرنگ ڈیسک )ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق یہ واقعہ مجرموں کی ساہیوال جیل سے منتقلی کے دوران پیش آیا جبکہ ان کے دیگر تین ساتھی دوسری جیل وین میں ہونے کی وجہ سے فرار نہیں ہوسکے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے مطابق جولائی 2021 میں داسو ہائیڈل پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینیئرز پر حملے کے ماسٹر مائنڈ دو مجرم جمعے کو ساہیوال میں جیل سے فرار ہونے کی کوشش میں مارے گئے۔
ترجمان سی ٹی ڈی نے بتایا کہ یہ واقعہ مجرموں کی ساہیوال جیل سے منتقلی کے دوران پیش آیا جبکہ ان کے دیگر تین ساتھی دوسری جیل وین میں ہونے کی وجہ سے فرار نہیں ہوسکے۔
ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق: ’داسو حملے کے ماسٹر مائنڈ سمیت پانچ دہشت گردوں کو تھریٹ الرٹ کی بنیاد پر ساہیوال جیل سے دوسری جیل میں منتقل کیا جا رہا تھا۔ اس دوران سمندری روڈ کے قریب نامعلوم دہشت گردوں نے داسو حملے میں ملوث ساتھیوں کو چھڑوانے کے لیے حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں دہشت گرد محمد حسین اور محمد ایاز کی اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے موت ہوگئی جبکہ سی ٹی ڈی اور ضلعی پولیس کے اہلکار فائرنگ کے دوران بال بال بچ گئے۔‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’فائرنگ کرنے والے دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔‘
داسو واقعہ کیسے پیش آیا اور ملزمان کو کیسے پکڑا گیا؟
14 جولائی 2021 کو داسو ہائیڈل پراجیکٹ پر کام کرنے والے عملے پر داسو کے مقام حملے میں نو چینی شہریوں سمیت 13 اموات جبکہ 20 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
سکیورٹی حکام نے جائے وقوعہ سے خون کے دھبوں سے لے کر گاڑی اور کپڑوں کے ٹکڑوں تک کو محفوظ کیا تھا۔
تحقیقات کے دوران سب سے پہلے بارود کے ذرات، دھماکے کی شدت اور گاڑیوں کے پرزوں سے جانچا گیا کہ دھماکہ ہنڈا موٹر کار کے ذریعے کیا گیا جبکہ اس کے ٹکڑوں اور جائے وقوعہ پر انسانی جسم کے اعضا سے معلوم ہوا کہ دھماکہ خودکش تھا۔اس واقعے کی تحقیقات کرنے والے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’ڈیم جس شاہراہ پر قائم ہے وہاں کی سی سی ٹی وی فوٹیج جمع کی گئی۔ اس فوٹیج کی مدد سے اسی ہنڈا کار کا پیچھا کیا گیا اور بالآخر ایک جگہ پر حساس ادارے اس گاڑی کے فرنٹ نمبر پلیٹ تک پہنچے۔
’جائے وقوعہ سے اکھٹے کیے گئے کار کے ٹکڑوں اور فوٹیج میں ایک سرخ رنگ کا سٹکر ملا، جس پر کسی شوروم کا ذکر تھا۔ لیکن وہ سٹکر واضح نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسی سٹکر میں کہانی پھنسی ہوئی تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ مشکل جدید ٹیکنالوجی نے حل کر دی۔ جب سٹکر واضح ہوا تو اس کے اوپر لکھا تھا ’چمن 2 شوروم‘۔پھر بلوچستان سے لے کر گلگت تک چمن 2 شو روم کی تلاش شروع ہوئی۔ یہ تلاش ملاکنڈ چکدرہ پر اس وقت ختم ہوئی جب وہاں یہ شوروم ملا۔
’اس شوروم کے مالکان کو گاڑی کی تصاویر دکھائی گئیں جو فارنزک کی ٹیم نے انتہائی محنت سے تیار کی تھیں۔ شو روم کے ریکارڈ کو جانچا گیا تو معلوم ہوا کہ سید محمد ولد خائیستہ محمد نے یہ گاڑی شو روم سے لی تھی۔
’ان کے حلیے اور موبائل نمبر سے سید محمد کی تلاش شروع ہوئی تو جلد ہی حساس اداروں کو معلوم ہوا کہ ان کا اصل نام تو محمد حسین ولد عبدالرحیم ہے اور وہ سوات تحصیل مٹہ کے علاقے سپین پوڑہ کے رہائشی ہیں۔محمد حسین کو سی ٹی ڈی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس حساس ادارے کے اہلکاروں نے اٹھایا اور نامعلوم مقام پر تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ گاڑی کی فراہمی اور رابطوں میں ان کے ساتھ محمد ایاز اور فضل ہادی بھی تھے، ان کو بھی ٹریس کرکے گرفتار کیا گیا۔‘
پولیس تفتیش کے مطابق ان تینوں سے الگ الگ پوچھ گچھ کی گئی تو واقعے کی تصویر بننی شروع ہو گئی۔ اس کے بعد ان کی کہانیوں کو جوڑا گیا۔ معلوم ہوا کہ اس ایک واقعے کے پیچھے آٹھ اور کردار بھی تھے۔ ان کو حراست میں لینے کے لیے الگ الگ ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ دیگر ملزمان میں محب اللہ عرف عرفان، میاں سید محمد، شوکت علی، عبدالوہاب، عمرزادہ، انور علی، خالد اور طارق عرف ’بٹن خراب‘ شامل تھے۔
پولیس حکام کے مطابق دوران تفتیش معلوم ہوا کہ محمد حسین ہی اس حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ اس حملے کے لیے گاڑی سات ماہ پہلے جنوری 2021 کو ہی خریدی گئی تھی اور محمد حسین نے اپنے پاس رکھی تھی۔
سات جولائی کو وہ خودکش حملہ آور خالد عرف شیخ کو لے کر محمد حسین کے پاس پہنچا۔ خود کش اور بارودی مواد فٹ کرنے کے بعد طارق عرف بٹن خراب واپس افغانستان روانہ ہوا جب کہ باقی افراد نے حملے کی منصوبہ بندی کو آخری شکل دینا شروع کردی۔
تحقیقات کے مطابق ٹھیک ایک ہفتے بعد 14 جولائی کو خالد بارود سے بھری گاڑی لے کر داسو میں چینی انجینیئرز اور مقامی افراد کو لے جانے والی بس سے ٹکرانے میں کامیاب ہوا۔
تمام شواہد، بیانات اور ملزمان کو لے کر نو نومبر 2021 کو سی ٹی ڈی پولیس ہزارہ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئی۔ ایک ہی سال میں عدالت نے ملوث ملزمان محمد حسین ولد عبدالرحیم کو اس مقدمے کے مختلف دفعات میں ملوث پاتے ہوئے 13 بار سزائے موت، 15 لاکھ روپے جرمانہ، 10 سال قید بامشقت (32 بار)، دو سال قید بامشقت بمعہ 10 لاکھ روپے جرمانہ، 18 سال قید بامشقت (سات بار)، 18 ماہ قید بامشقت کی سزا سنائی۔
محمد ایاز عرف جانباز ولد صوبیدار خان کو 13 بار سزائے موت اور 15 لاکھ روپے جرمانہ، 10 سال قید بامشقت (32 بار)، دو سال قید بامشقت بمعہ 10 لاکھ روپے جرمانہ، 18 ماہ قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔