والد کی آخری رسومات یا میچ: کوہلی کا مشکل ترین فیصلہ
یہ سال 2006 کا وہ دسمبر تھا کہ جب دنیا آنے والے دور کے ایک عظیم کھلاڑی کو کھیلتا دیکھ رہی تھی۔
رنجی ٹرافی میں دہلی بمقابلہ کرناٹک چار روزہ میچ شروع ہوا۔ کرناٹک نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کرتے ہوئے 446 رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ دہلی کی ٹیم 446 رنز کے مقابلے میں لڑکھڑا گئی59 رنز پر ہی شیکھر دھون، آکاش چوپڑا، ماینک اور دیگر کھلاڑیوں سمیت پانچ کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔ یہ میچ 17 دسمبر تا 20 دسمبر کھیلا گیا۔ دہلی کو اب ایک ایسے کھلاڑی کی ضرورت تھی جو اگرچہ میچ تو نہیں جتا سکتے تھے لیکن میچ ڈرا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے تھے۔
دوسری طرف دہلی کی ٹیم میں 18 سالہ وراٹ کوہلی بھی شامل تھے۔ وراٹ کوہلی کے لیے یہ رنجی ٹرافی کا پہلا سیزن تھا لیکن میچ کے دوران ہی انہیں ایک ایسے المیے نے گھیر لیا کہ ان کے لیے باقی میچ کھیلنا دشوار ہو گیا۔
18 دسمبر 2006 کو وراٹ کوہلی کے والد پریم کوہلی انتقال کر گئے۔ وراٹ کوہلی نے اپنے والد کی آخری رسومات میں شامل ہونے اور ٹیم کو مشکلات سے نکالنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔
اچانک وراٹ کوہلی گراؤنڈ میں نمودار ہوتے ہیں اور پھر تاریخ کا حصّہ بن جاتے ہیں۔ وراٹ کوہلی نے اپنی مینجمنٹ اور گھر والوں سے مشاورت کے بعد میچ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔
وراٹ کوہلی نے پونیت بھشٹ کے ساتھ بہترین پارٹنرشپ کے بل بوتے پر 90 رنز سکور کیے اور اپنی ٹیم کو کچھ اس طرح مشکلات سے نکالا کہ وہ میچ بالآخر ڈرا ہو گیا۔
رنجی ٹرافی کا یہ میچ اس وقت کے دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ سٹیڈیم میں کھیلا گیا جہاں وراٹ کوہلی سردی سے بچنے کے لیے ایک سفید رنگ کی ٹوپی اور سویٹر پہنے سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے ساتھ نظر آئے۔
ایک وقت وہ تھا کہ جب وراٹ کوہلی کے لیے میچ کھیلنے اور والد کے آخری رسومات میں شرکت کرنے میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا تاہم وراٹ کوہلی نے کرکٹ کے ساتھ لگاؤ اور والد کے خواب کو پورا کرنے کو مقدّم سمجھاکوہلی کے والد ایک وکیل تھے اور جب مایہ ناز بلے باز 18سال کے تھے تو وہ انتقال کر گئے تھے۔ اس دن میچ کھیل کر انہوں نے نہ صرف اپنی ٹیم کو مشکلات سے نکالا بلکہ میچ کے بعد اپنے والد کی آخری رسومات میں بھی شامل ہوئے۔
جبکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب وہ اسی سٹیڈیم جس کا نام بعد میں ’ارون جیٹلی سٹیڈیم‘ رکھا گیا، میں ’وراٹ کوہلی پویلین‘ کے سامنے کھیل رہے تھے۔
والد کے انتقال کے بعد فیروز شاہ کوٹلہ سٹیڈیم میں سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی کی تسلّی سے لے کر ’وراٹ کوہلی پویلین‘ کے سامنے کھیلنے تک یہ سفر دشوار تو رہا ہوگا لیکن وراٹ کوہلی نے اس دوران خود کو ایک مایہ ناز کھلاڑی کے طور پر متعارف کروایا۔
یہ کہانی انڈین مایا ناز بیٹسمین وراٹ کوہلی نے ایک امریکی صحافی گراہم بین سنگر کو انٹرویو میں بتائی ہے۔ انٹرویو کے دوران وراٹ کوہلی بتاتے ہیں کہ ’میں چار روزہ میچ کھیل رہا تھا جب یہ واقعہ (والد کا انتقال) پیش آیا۔ مجھے اگلے ہی روز بیٹنگ کرنا تھی۔ ہم جب صبح اُٹھے تو ہمیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اب کیا ہوگا؟ میں نے اپنے والد کو آخری سانس لیتے ہوئے دیکھا تھا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ اس دن میچ کھیلنے کا فیصلہ انہوں نے اسی وجہ سے کیا کہ ان کے والد انہیں انڈیا کے لیے کھیلتا دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ای ایس پی این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’میں صدمے میں تھا، لیکن میں جانتا تھا کہ میرے والد چاہیں گے کہ میں کھیلوں۔ یہ اپنے والد کو خراج تحسین پیش کرنے کا میرا اپنا طریقہ تھا جو ہمیشہ سے مجھے انڈیا کے لیے کھیلتا دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ کرکٹ کے معاملے میں ہر دوسری چیز ثانوی حیثیت رکھتی ہے اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا اور میرے اس فیصلے نے مجھے طاقت بخشی۔‘
وراٹ کوہلی 18 نمبر کی شرٹ پہنتے ہیں جس کے پیچھے کوئی خاص سوچ تو کارفرما نہیں البتہ وراٹ کوہلی کے مطابق ’مجھے پہلی بار 18 نمبر کی شرٹ انڈر 19 ٹیم میں ملی تھی۔ تب میرے لیے یہ صرف نمبر تھا تاہم وقت کے ساتھ یہ نمبر میری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہوگیاانہوں نے بتایا کہ انڈیا کے لیے ان کا ڈیبیو 18 اگست 2008 کو ہوا تھا جبکہ 2008 میں 18 دسمبر کو ان کے والد دنیا سے چلے گئے تھے۔ ’یہ دونوں تاریخیں میری زندگی میں بڑی اہم ہیں، یہ شرٹ مجھے ان واقعات سے بہت پہلے ملی تھی۔ اس نمبر کا میرے ساتھ جادوئی تعلق بن چکا ہےوراٹ کوہلی جنہیں آج کل ’کرکٹ کا بادشاہ‘ کہا جاتا ہے، بچپن سے ہی کرکٹ کھیلنا چاہتے تھے۔ پانچ نومبر 1988 کو دہلی میں پیدا ہونے والے وراٹ کوہلی کی والدہ سروج کوہلی ایک گھریلو خاتون ہیں۔
وہ اپنے بھائی وکاش اور بھاونا کے ساتھ پلے بڑھے لیکن ان کے لیے ان کے والد نے ابتدا سے ہی مستقبل تراشنا شروع کر دیا تھا۔ دی ہندو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کہ ’میں اپنے والد کے ساتھ کرکٹ دیکھتا تھا اور وہ مجھے سنیل گواسکر اور کپل دیو کے بارے میں کہانیاں سناتے تھے۔ ان کہانیوں نے مجھے کرکٹر بننے کی ترغیب دی۔‘
انہوں نے بتایا کہ بچپن میں جب کھلونے لائے جاتے تو وہ ان میں سے کرکٹ بیٹ اور گیند کا انتخاب کرتے اور گلی میں کرکٹ کھیلنے نکل جاتے۔
کوہلی کے بچپن کے دوست اور ساتھی کرکٹر ایشانت شرما ان کے ساتھ دسمبر 2006 میں ہونے والے میچ میں بھی شریک تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم گلیوں میں کرکٹ کھیلتے تھے اور ویرات ہمیشہ جیتنا چاہتے تھے۔ انہیں ہارنے سے نفرت تھی۔‘
وراٹ کوہلی نے دہلی کے وشال بھارتی پبلک سکول میں تعلیم حاصل کی، جہاں انہوں نے کوچ راجکمار شرما کے زیر نگرانی کرکٹ کھیلی۔
ای ایس پی این کرک انفو کے ساتھ ایک انٹرویو میں وراٹ کوہلی کے کوچ راجکمار شرما یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وراٹ ایک اوسط درجے کے طالب علم تھے لیکن کرکٹ پر ان کی توجہ غیر معمولی تھی۔ کرکٹ سے ان کا لگاؤ اتنا تھا کہ وہ دہلی میں خاصے مقبول ہوگئے تھے۔‘
جب وہ نویں جماعت میں تھے تو انہوں نے ویسٹ دہلی کرکٹ اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی جبکہ اسی کے ساتھ وہ سومیت ڈوگرہ اکیڈمی میں بھی میچز کھیلتے تھے۔ ان کی قابلیت اور لگن نے انہیں دہلی کی انڈر 15 ٹیم میں جگہ دلائی اور وہ بڑھتے چلے گئے۔
بچپن میں اپنے والد سے نامور کھلاڑیوں کی کہانیاں سننا، ان کے ساتھ میچ دیکھنا اور ان سے میچ سے متعلق معلومات لینا، اپنے کوچ سے سکول میں کرکٹ سیکھنا، گلی محلوں میں بلا اُٹھائے ہر وقت کرکٹ کے لیے دوڑنا، انڈین کرکٹ ٹیم کی کامیابیوں کا سفر ملاحظہ کرنا اور کئی دیگر عوامل تھے جن کی بدولت وراٹ کوہلی کرکٹ کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھےوہ اکثر لیجنڈری بلے باز سچن ٹنڈولکر کو اپنے آئیڈیل قرار دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا موازانہ ٹنڈولکر سے بھی کیا جاتا ہے۔ ٹی ٹونٹی، ون ڈے، ٹیسٹ کرکٹ غرض ہر طرح کے فارمیٹ میں وراٹ کوہلی کے ریکارڈز کا شمار ممکن نہیں تاہم ان کے لیے آج بھی آئی پی ایل ٹائٹل جیتنا ایک خواب ہی ہے۔ وہ انشین پریمئیر لیگ میں رائل چیلنجرز بنگلور کے لیے کھیلتے ہیں تاہم انہوں نے اب تک کوئی ٹائٹل اپنے نام نہیں کیا۔
کرکٹ کا ابتدائی سفر
ویسے تو وراٹ کوہلی کے کرکٹ کا سفر طویل ہے لیکن انہوں نے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز 2008 میں کیا جب انہوں نے 2 مارچ 2008 کو ورلڈ کپ فائنل میں جنوبی افریقہ کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔
کوہلی اس وقت انڈیا کی انڈر 19 ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ دنیا کی نظروں میں کیسے آئے؟ ان کے کوچ راجکمار شرما نے 2002 کے اختتام اور 2003 کے اوائل میں کھیلے گئے ایک انڈر 15 ٹورنمنٹ، پولی عمریگر ٹرافی میں وراٹ کوہلی کو دنیا کے سامنے لانا چاہا۔
انہوں نے انڈین کھلاڑی آشیش نہرا کو اس ٹورنمنٹ کے ایک میچ دیکھنے کی دعوت دی۔ اس ٹورنمنٹ میں وراٹ کوہلی سب سے زیادہ رنز بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد وہ وجے مرچنٹ ٹرافی کے لئے دہلی انڈر 17 ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔
اس ٹورنمنٹ میں بھی انہوں نے صرف چار میچوں میں سب سے زیادہ 470 رنز بنائے۔ یہ سفر جاری رہا اور کوہلی کو 2006 میں رانجی کپ کھیلنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنا پہلا فرسٹ کلاس میچ رانجی کپ میں تامل ناڈو کے خلاف کھیلا تاہم وہ خاطر خواہ کھیل کا مظاہرہ نہ کر سکے۔
اسی دوران ان کے والد کا انتقال ہوگیا لیکن وہ اس حالت میں بھی کھیلنے کے لئے گراونڈ آئے جہاں انہوں نے اپنی ٹیم کو ہارنے سے بچایا اور وہ دنیا کی نظروں میں آگئے۔
چند ماہ بعد انہیں 18 اگست 2008 کو سری لنکا کے خلاف رنگیری دمبولا انٹرنیشنل سٹیڈیم میں بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کا موقع ملا۔ یہ ان کا پہلا ون ڈے انٹرنیشنل میچ تھا۔ اس میچ میں سری لنکا نے انڈیا کو شکست سے دوچار کیا اور وراٹ کوہلی بھی بہترین کھیل کا مظاہرہ نہ کر پائے16 دسمبر 2012 کو چنئی کے ایم اے چدمبرم اسٹیڈیم میں پاکستان کے خلاف ون ڈے میچ کے دوران انہوں نے 52 گیندوں پر تیز ترین سنچری بنا ڈالی اور پھر وہ انڈیا کے چہیتے بلے باز بن گئے۔
یوں وہ 2015 میں انشیا کے ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان بن گئے اور اپنی ٹیم کو کئی فتوحات دلائیں جن میں 2018-19 میں آسٹریلیا میں تاریخی سیریز کی جیت بھی شامل ہے2017 میں کوہلی نے اداکارہ انوشکا شرما سے شادی کی جس سے ان کی ایک بیٹی وامیکا اور ایک بیٹا اکے پیدا ہوئے۔ انوشکا شرما کے ساتھ ان کی جوڑی کو دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔
کرکٹ کے میدان میں رومانوی اشاروں سے لے کر آف دی فیلڈ کرکٹ سے متعلقہ مزاحیہ ویڈیوز بنانے تک ان کے چاہنے والے انہیں ایک ساتھ دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔ کوہلی نے بالی ووڈ اداکارہ انوشکا شرما کے ساتھ 2013 میں ڈیٹنگ شروع کی تھی۔
اس جوڑے نے جلد ہی مشہور شخصیتی جوڑے کا عرفی نام ’ویروشکا‘ حاصل کر لیا اور ہر جگہ ان سے متعلق گفتگو ہونے لگی۔ جوڑے نے 11 دسمبر 2017 کو فلورنس، اٹلی میں ایک نجی تقریب میں شادی کی۔
انوشکا شرما کے ساتھ شادی سے قبل انہیں تمنا بھاٹیہ سمیت کئی دیگر اداکاراؤں کے ساتھ افئیرز جیسے تنازعات کا بھی سامنا رہا ہے۔ ویرات اب انوشکا شرما سے شادی کر چکے ہیں اور دو بچوں کے باپ ہیں لیکن شوہر اور باپ بننے سے پہلے ان کی زندگی نے کچھ رشتوں کے حوالے سے کئی چہ مگوئیوں کو جنم دیا۔
ماضی میں وہ مبینہ طور پر تمنا بھاٹیا کے ساتھ تعلقات میں تھے اور دونوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں افواہیں اس وقت پھیلنا شروع ہوئیں جب انہوں نے ایک اشتہار میں ایک ساتھ کام کیا۔ تاہم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دونوں بعد میں الگ ہو گئے۔
تمنا بھاٹیہ کے علاوہ وہ مبینہ طور پر ماڈل و اداکارہ ازابیل لیٹی کے ساتھ تعلقات کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں۔ دونوں مبینہ طور پر ایک پارٹی میں ملے اور ایک دوسرے کے قریب آئے۔
تاہم، ان تنازعات کے علاوہ کوہلی کو اپنی آن فیلڈ جارحیت اور سٹیو سمتھ سمیت مچل سٹارک جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ عوامی جھگڑوں کی وجہ سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کرکٹ تجزیہ کار ہرشا بھوگلے نے ای ایس پہ این کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ’وراٹ کی جارحیت ایک دو دھاری تلوار ہے۔ یہ اسے کامیابی کی طرف لے جاتا ہے، لیکن اسے مصیبت میں بھی ڈالتا ہے۔‘
طویل عرصہ تک وراٹ کوہلی کو اپنی جارحانہ طبیعت کے لیے جانا جاتا تھا وہ میچ کے دوران سخت اشارے، سخت زبان اور جھگڑوں کے لیے مشہور تھے تاہم انہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود پر قابو پایا۔
آج کل وہ کسی حد تک مصلحت پسند کھلاڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ورات کوہلی اب تک کے کامیاب ترین کرکٹرز میں سے ایک ہیں۔ بحیثیت کپتان بہت سے لوگ انہیں کھیل کے طویل ترین فارمیٹ میں بہترین انڈین کپتان مانتے ہیں۔لیکن بطور ایک فرد وہ کسی حد تک متنازع رہے ہیں۔
ابتدائی دنوں میں وراٹ کوہلی کا شمار ایسے شخص کے طور پر کیا جاتا رہا جو غیر ضروری طور پر لڑائی جھگڑوں میں پڑ جاتا تھاوراٹ کوہلی اور بابر اعظم کا موازانہ پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں کیا جاتا رہا ہے۔ ای ایس پی این کرک انفو کے مطابق سٹار سپورٹس چینل سے بات کرتے ہوئے وراٹ کوہلی نے بابر اعظم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کے پہلے دن سے بابر اعظم کی جانب سے عزت اور احترام دیکھا اور ان کے رویے میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئیوراٹ کوہلی کا کہنا تھا کہ ’بابر اعظم نے اپنی کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھا ہے اور ہمیشہ ان کا میچ دیکھ کر مزہ آتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستانی کپتان کے ساتھ ان کا پہلا تعارف مانچسٹر میں 2019 کے ورلڈ کپ میں ہوا تھا اور عماد وسیم نے کہا تھا کہ بابر اعظم آپ کے ساتھ ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔‘
وراٹ کوہلی کے مطابق وہ عماد وسیم کو انڈر 19 کے ورلڈ کپ سے جانتے ہیں۔ اس کے بعد بابر اعظم نے وراٹ کوہلی کی جانب سے تعریف پر جواب بھی دیا۔ بابر اعظم نے کہا ہے ’کافی اچھا محسوس ہوتا ہے جب کوئی آپ کے بارے میں اس طرح کے کمنٹس دیتا ہے، جس طرح وراٹ کوہلی نے میرے بارے میں کمنٹس دیے وہ میرے لیے کافی فخر کی بات ہے۔‘
بابر اعظم نے بتایا کہ ’جب میں وراٹ کوہلی سے 2019 میں ملا تھا تب وہ اپنے عروج پر تھے اور آج بھی عروج پر ہیں، اُس وقت میں سوچ رہا تھا کہ وراٹ کوہلی سے کچھ سیکھ لوں اور مجھے سیکھنے کا موقع بھی ملا۔‘
آج کل چیمپئنز ٹرافی میں انڈین کرکٹ ٹیم کی شرکت غیر یقینی ہے تاہم وراٹ کوہلی پاکستان آنے کے خواہشمند ہیں۔
پاکستان کے نوجوان کوہ پیما شہروز کاشف نے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں وہ انڈین کرکٹر وراٹ کوہلی سے فون پر گفتگو کر رہے ہیں۔
اس ویڈیو میں وراٹ کوہلی شہروز کو کہہ رہے ہیں کہ ’اپنے اہل خانہ کو میری طرف سے سلام کہنا، میں اُمید کرتا ہوں کہ ہم جلد ہی پاکستان آئیں گے، کیونکہ باقی ٹیمز بھی پاکستان آنا شروع ہو گئی ہیں