پاکستان

ملک میں 2030 تک 30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک پر منتقل کرنے کیلئے نئی پالیسی کا اعلان

حکومت نے بڑے اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کے باوجود نیو انرجی وہیکل (این ای وی) پالیسی کا اعلان کردیا جس کا مقصد 2030 تک درآمد شدہ اور پاکستان میں مقامی طور پر تیار کردہ تمام نئی گاڑیوں میں سے 30 فیصد کو الیکٹرک پاور پر منتقل کرنا ہے۔
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے نیوز کانفرنس میں ان اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پالیسی سازی کے عمل میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہے۔
تاہم ان کے خطاب کے فوری بعد، پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) نے ایک بیان جاری کیا جس میں مقامی آٹو انڈسٹری پر نئی پالیسی کے ممکنہ اثرات کے بارے میں سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
نئی پالیسی میں الیکٹرک گاڑیاں (ای ویز) اور دیگر ابھرتے ہوئے توانائی کے ذرائع جیسے ہائیڈروجن شامل ہیں۔حکومت نے بڑے اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کے باوجود نیو انرجی وہیکل (این ای وی) پالیسی کا اعلان کردیا جس کا مقصد 2030 تک درآمد شدہ اور پاکستان میں مقامی طور پر تیار کردہ تمام نئی گاڑیوں میں سے 30 فیصد کو الیکٹرک پاور پر منتقل کرنا ہے۔
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے نیوز کانفرنس میں ان اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پالیسی سازی کے عمل میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہے۔
تاہم ان کے خطاب کے فوری بعد، پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) نے ایک بیان جاری کیا جس میں مقامی آٹو انڈسٹری پر نئی پالیسی کے ممکنہ اثرات کے بارے میں سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
نئی پالیسی میں الیکٹرک گاڑیاں (ای ویز) اور دیگر ابھرتے ہوئے توانائی کے ذرائع جیسے ہائیڈروجن شامل ہیں۔پاما نے انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (ای ڈی پی) کو لکھے گئے خط میں این ای وی پالیسی کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ سی کے ڈیز کے مقابلے میں کم ڈیوٹی اسٹرکچر پر مکمل طور پر تعمیر شدہ یونٹس (سی بی یوز) کی درآمد مقامی صنعت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان نے دلیل دی کہ SRO 656 کے مطابق مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ کے لیے کم از کم سہولیات سے لیس کمپنیوں کو ہی ’سی بی یو‘ کی درآمدات کی اجازت دی جانی چاہیے، تاکہ کباڑ خانہ نہ بنے اور ایسا نہ ہو کہ صارفین کو فروخت کے بعد سپورٹ ہی نہ ملے۔
پاما نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ ہائبرڈ الیکٹرک وہیکلز (ایچ ای ویز) اور پلگ اِن ہائبرڈ وہیکلز (پی ایچ ای ویز) کے لیے موجودہ پالیسی 2030 تک جاری رکھی جائے، اور اگر پی ایچ ای ویز کو مزید مراعات دی جاتی ہیں، تو وہی ایچ ای ویز کو بھی دی جانی چاہئیں۔
ایسوسی ایشن نے تجویز کیا کہ این ای ویز کے لیے ڈیوٹی اور مراعات کو تیسرے سال سے شروع ہونے والی دیگر گاڑیوں کے ساتھ ملایا جائے۔ پاما نے پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے لیے طویل مدتی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ایک مقررہ مدت کے اندر سی بی یو درآمد کنندگان کے لیے مقامی مینوفیکچرنگ سہولیات قائم کرنے کو لازمی قرار دینے کا مطالبہ کیا۔
اس نے این ای ویز کے لیے ڈیوٹی اور مراعات کو 2030 تک مرحلہ وار پیٹرول، ڈیزل یا سی این جی استعمال کرنے والی انٹرنل کمبسشن انجن (آئی سی ای) گاڑیوں کے لیے حاصل مراعات کے مطابق کرنے کی سفارش کی۔ ایسوسی ایشن نے این ای وی پالیسی میں قابل تجدید توانائی والی گاڑیاں، جیسے بائیو گیس ایندھن سے چلنے والی کاروں کو شامل کرنے اور ایچ ای ویز اور پی ایچ ای ویز کے لیے پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانے کی تجویز بھی دی۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com