’کہیں سال ضائع نہ ہو جائے‘، طلبہ کو میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے داخلوں میں تاخیر پر تشویش
ملک بھر میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے سال 2024 کے داخلوں میں تاخیر سے طلبا کو پریشانی کا سامنا ہے۔ سمن فاطمہ کا تعلق لاہور سے ہے اور ان کا ایم ڈی کیٹ یعنی میڈیکل کالج ٹیسٹ ہو چکا ہے جو انہوں نے پاس بھی کیا ہے۔
تاہم داخلے شروع نہ ہونے کی وجہ سے وہ غیریقینی کی صورت حال سے دوچار ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے بالکل نہیں پتا کہ داخلے کب کھلیں گے۔ کہیں میرا تعلیمی سال ضائع نہ ہو جائے۔ اگر وقت پر داخلے ہو جاتے تو کم ازکم آپشن تو کھلا ہوتا کہ اگر میڈیکل میں داخلہ نہ ہوا تو آگے کیا کرنا ہے۔انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’ابھی بھی پی ایم ڈی سی نے جو نوٹیکیشن جاری کر کے یہ داخلے رکوائے تھے اس میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ داخلے کب کھلیں گے اور اس کو عدالتی فیصلے سے مشروط کر دیا میری فیملی میں کافی لوگ ڈاکٹر ہیں، کبھی کسی نے ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کیا۔کچھ اسی طرح کی کہانیاں دوسرے میڈیکل کے طلبا کی بھی ہیں۔ جو داخلے شروع نہ ہونے کی وجہ سے شش وپنچ میں ہیں۔محمد احسن کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک عجیب صورت حال ہے اس لیے میں نے بی فارمیسی میں داخلہ لے لیا، اس کی فیس بھی بھر دی لیکن ابھی میڈیکل کالجز کے داخلے کھلنے کا انتظار کروں گا اور اگر میرٹ لسٹ پہ نام آ گیا تو یہ چھوڑ دوں گا اور ظاہر ہے جو پیسے بھرے ہیں وہ ضائع ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔پاکستان میں میڈکل کالجز میں داخلوں پر 21 اکتوبر کو میڈکل کالجز میں داخلے کے نگران ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے پابندی عائد کر رکھی ہے جو کہ سندھ اور اسلام آباد ہائیکورٹس کے احکامات پر عائد کی گئی۔اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ اس سال جب میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے امتحانات ایم کیٹ شروع ہوئے تو اسلام آباد اور سندھ میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں رپورٹ ہوئیں۔
پیپر لیک ہونے اور نقل کے شواہد سامنے آئے جس کے بعد ایسے طلبا نے عدالتوں سے رجوع کر لیا جو اپنا امتحان میرٹ پر دے رہے تھے۔عدالتوں نے ابتدائی سماعت کے بعد ہی سندھ اور اسلام آباد میں دوبارہ امتحانات کے احکامات جاری کر دیے اور ساتھ ہی اس وقت ملک کے دیگر صوبوں میں بھی داخلے روک دیے۔یوں پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے طلبا جنہوں نے امتحانات دے دیے تھے اب سندھ اور اسلام آباد میں ہونے والے دوبارہ امتحانات کا انتظار کر رہے ہیں۔
سیالکوٹ میڈیکل کالج کے شعبہ ادویات کے سربراہ پروفیسر سلمان شیروانی کہتے ہیں کہ ’یہ پہلی مرتبہ ہے کہ طلبا کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور میڈیکل کالجز بھی اس وقت دباؤ میں ہیں کیونکہ ان کے بجٹ بھی دو دو مہینے اب آوٹ ہو جائیں گے۔ نئے طلبہ کی داخلہ فیسوں کا کالجز کے بجٹ میں بڑا کردار ہوتا ہے۔‘
کیا تعلیمی سال کا حرج ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اب ایک جگہ پر 8 اور ایک پر 14 دسمبر کو امتحان ہو رہے ہیں۔ اور فوری نتائج کا اعلان ہوتے ہی بغیر وقت ضائع کیے داخلے کھول دیے جائیں تو پھر بھی اس سال داخلوں کا عمل مکمل نہیں ہو گا، تاہم کلاسز کا وقت بچایا جا سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بس زیادہ مسئلہ ان بچوں کو ہو گا جن کا نام میرٹ لسٹ پر نہیں ہو گا اور اس وقت تک دیگر شعبوں کے داخلے بند ہو چکے ہوں گے۔