ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا فیصلہ جنرل باجوہ کا تھاپی ٹی آئی کا نہیں

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے دیے گئے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا تھا، اور یہ پی ٹی آئی کا فیصلہ نہیں تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ بات نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں سامنے آئی تھی، جہاں جنرل باجوہ نے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ "اس وقت پاکستان میں انٹرنیٹ کا دور ہے، اور معلومات فوری طور پر پہنچ جاتی ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات کے لیے جنرل باجوہ کا موقف تھا کہ ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے، اور یہ بات پی ٹی آئی کی پالیسی کا حصہ نہیں تھی۔عمر ایوب نے اس موقع پر افغانستان کے ساتھ بارڈر کی صورتحال پر بھی بات کی اور الزام لگایا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے 550 ارب روپے مالیت کا پیٹرول اسمگل ہو کر آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ذمہ داری حکومت اور انٹیلیجنس اداروں پر عائد ہوتی ہے۔اس کے علاوہ، انہوں نے خیبرپختونخواہ کے صحت کارڈ پروگرام اور وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کے واجب الادا 1500 ارب روپے کی عدم ادائیگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس صوبے کے لیے کچھ نہیں کیا۔عمر ایوب نے 5 جولائی 2022 کے حوالے سے بھی بات کی، جب حکومت نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں بتایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ ان واقعات کی تحقیقات کی جا سکیں۔عمر ایوب نے حسان نیازی اور دیگر اسیران کے حوالے سے بھی کہا کہ ان کے خلاف سزائیں ہائی کورٹ سے کالعدم ہو جائیں گی۔



