لیہ میں اب تک جتنی فلمیں ۲۰۱۰ء سے بنائی جارہی ہیں ان سب میں مشترک سلطان راہی مرحوم ک طرز پر بد معاشی اور انجمن کے جیسی گانوں کی شوٹنگ کے دوران سرسبز کھیتوں کو اجاڑ نا شامل ہیں۔ یعنی لیہ کی ثقافت کو مسخ کر کے پیش کیا جارہا ہے۔ اگر کہیں دس فی صد فساد کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو نوے فی صد امن تعلیم اور خوشحالی کے بھی مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔ اصلاحی ڈراموں کے بیا نیہ کو سخ کیا جا رہا ہے۔ مار دھاڑ والی فلموں سے خصوصاً بچوں میں اصلاح کی بجائے کلاشنکوف کے کلچر کو فروغ ملتا ہے۔ اب مذہب اور سائنس پر نئے موضوعات کی فلمیں بنانا دور جدید کا تقاضا ہیں۔ جب کہ پریشان انسان خود کشی پر مجبور ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں عامر خان و دیگر تعلیمی و مذهبی موضوعات پر موویز دے چکے ہیں۔ فلم پی کے میں عامر خان خدا کو تلاش کر رہے ہیں تو
تھری ایڈیٹ میں بچوں کو ان کی پسند کے برخلاف ڈگری حاصل کرنے کو موضوع بنا رہے ہیں۔
قیام پاکستان سے پہلے، ۱۹۴۰ء سے پہلے ہمیں سینما کا کوئی وجود نہ ملتا ہے۔ اُس وقت گلی محلوں میں فقط پیکی یا بکری تماشہ ہوا کرتا تھا۔ پانی پت (انڈیا) کے موجودہ لیہ نواسی سدھو رام ڈھینگرا ( عمر پچانوے سال) 25 دسمبر 5 192 کولیہ کے محلہ گڑیا نوی والا میں جنڈ والی گلی کے کسی گھر میں لالہ ہند ر باند ڈھینگڑا کے ہاں تولد ہوئے۔ یہ معروف سیاستدان شیخ بدر منیر کے چا شیخ عبد العزیز ( مرحوم ) کے کلاس فیلو تھے ۔ جب کہ ان کے بڑے بھائی شیخ بدر منیر کے والد عبد الرحمان مرحوم کے ہم جماعت تھے۔ ان دونوں بھائیوں کے والد شیخ اللہ بخش ایڈوکیٹ سدھو رام کے والد کے بہت اچھے دوست تھے۔ ریلوے اسٹیشن یہ تک ٹوری ٹاکی ( تھیر ) والے آیا کر تے تھے پروجیکٹر ٹائپ مشین کے ذریعہ سے پردے پر فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ یہ دوستوں کے ہمراہ فلمیں دیکھنے جایا کرتے تھے۔ انھیں آج بھی فلم لیلیٰ مجنوں یاد ہے۔ انھیں یہ بھی یاد ہے کہ پہلی مرتبہ 1940ء میں ٹوری ٹاکی ان کی زمین پر کی تھی اور انھیں مہینہ کے فری سولہ پاس ملا کرتے تھے ۔ 4 کانال شروع میں ٹوری ٹا کی والے مفت چائے اور سگریٹ بھی پیش کیا کرتے تھے۔ فقیر میاں الہی بخش لیکھی سرائی ( بحوالہ انٹرویو ایف ایم ریڈیو سال 2007ء) کے مطابق جی پی او آفس کے سامنے اور ویرا اسٹیڈیم کی جگہ پر بھی ٹوری ٹا کی لگا کرتی تھی۔ ہاں راقم الحروف کے دادا جی کے بھائی ماسٹر شیخ غلام محمد وشیخ محمد خالد ( خالد آئرن سٹور والے ) متفقہ طور پر بیان کرتے ہیں کہ موجود تھل ہسپتال کے باہر والی کچی سڑک پر ہندورام وسیتا کا ڈرامہ بھاگ بھاگ کر پر فارم کیا کرتے تھے اور ہم راستہ کے دونوں اطراف میں کھڑے ہو کر لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ انڈیا کے معروف لکھاری گوپی چند نارنگ ( بعمر 91 سال) بھی کچھ ایسی ہی یادیں بیان کرتے ہیں کہ گورنمنٹ ہائی سکول یہ میں جب تقسیم سے دو تین سال قبل پڑھا کرتے تھے تو اُس وقت سکول کے سامنے ٹوری نا کی یا تھیٹر والے آیا کرتے تھے۔ کمال پاشا کی تحقیق کے مطابق قیام پاکستان سے تھوڑا پہلے، پرانے بلوچ اڈہ پر جھنگ کی پارٹی نے ناز سینما کا آغاز کیا جو بعد ازاں منور نامی شخص کو شفٹ ہوا۔۔ گلستان اور چند سینما بعد میں تعمیر ہوئے۔ جن میں چند سینما اب شمع میں تبدیل ہو چکا ہے۔ گلستان جب کہ ختم ہو چکا ہے۔ اُس وقت کلاسیکی فلم کا عروج تھا۔ سٹیج ڈرامہ سینما پر پر فارم نہ کیا جاتا تھا۔ لیہ میں بھی سٹیج کے شروع کے دنوں میں نئے موضوعات کو شامل کیا جاتا رہا ہے جبکہ اس وقت جگت بازی کا عام رواج نہ تھا۔ اس ضمن میں فلم سٹیج کے سینئر فنکار رانا حنیف چسکا بیان کرتے ہیں کہا انھوں نے ۱۹۸۵ء میں سکول نمبر ایک میں چودہ اگست کے موقع پر ڈرامہ ”ہم سب ایک ہیں ” پر فارم کرنے سے اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں سینما پر سٹیج ڈرامہ کی پر فارمنس کا باقاعدہ آغاز ان کی لیہ آرٹ اکیڈمی کی جانب سے ہوا ۔ جسکے چیئر مین 1990ء کے لگ بھگ حاجی سلیم اختر جونی ایف ایم والے بنائے گئے تھے۔ مزید براں ہم نے سب سے پرانے اور پہلے ناز سینمالیہ، گلستان، اور چندہ (شمع) پر اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
شروع میں ٹکٹ دوروپے تھا بعد میں دس روپے ہو گیا تھا۔ اب مہنگائی بہت بڑھ گئی۔ خالی سینما کا ایک ہفتہ کا کرایہ دس ہزار تک پہنچ چکا ہے۔ فنکار اور فنکاراؤں کو بھی باہر سے منگوانا پڑتا ہے ۔ خصوصا فنکارلڑکیوں کی رہائش کھانے اور آرائش وزیبائش پر بہت خرچ آتا ہے۔ اور اُن کا خیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری میں شامل ہے۔ غریب کا المیہ بیان کرنا اٹھارویں صدی میں شروع ہوا۔ ڈرامے کی دوسری اقسام میں میلوڈرامہ یا گیتوں والا ڈرامہ بھی شامل ہے۔ ا
مزاحیہ ڈرامے بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں براسک قابل مثال ہے جس میں گھٹیا مزاح دیکھنے میں آتا ہے۔ جگت بازی شاید اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ جیسے آجکل لیہ سٹیج پر کہانی پر توجہ کم اور جگت بازی دمجرے پر حاضرین کے ذوق کے مطابق زیادہ صرف کی جاتی ہے۔
آجکل دور جدید میں کسی بھی فلم یا سٹیج کی کہانی ترتیب دیتے ہوئے تین مراحل کو فوقیت دی جانی چاہیئے۔ پری پروڈکشن یعنی فلم شروع کرنے کیلئے آلات جمع کرنا، پروڈکشن یعنی کیمرے کے سامنے ادا کاری کرنا اور پوسٹ پروڈکشن میں ایڈیٹنگ اور گانوں کی ری مکسنگ وغیرہ کرنا شامل ہیں۔ آخری مرحلے میں آجکل وی فکس ٹیکنالوجی کو بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اس پروگرامنگ کا استعمال وہاں کیا جاتا ہے۔ جہاں پہاڑ سے چھلانگ لگانا ہیرو کیلیئے ناممکن ہو وغیرہ۔ اگر مناسب اعلی تعلیم یافتہ ڈائریکٹر کی ہمراہی میسر آجائے تو کم بجٹ میں بھی فلم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ گانا یا ڈانس کا خرچ بچایا جاسکتا ہے۔ جس کا رواج بولی اور لولی وڈ کے علاوہ کسی فلم انڈسٹری میں نہیں پایا جاتا جبکہ ہندومت میں یہ مذہب کا حصہ تصور کیے جاتے ہیں۔ بولی وڈ میں بھی راجیش کھنہ کی ایسی متعدد موویز پائی جاتی ہیں جن میں گانے سرے سے ہیں ہی نہیں۔ اگر ہیں بھی تو بیک گراؤنڈ میوزک کی صورت ملیں گے۔ہم سے پہلے گگن پروڈکشن والے مختلف سکولوں، کالجوں ، میلوں ، ڈھیلوں اور ضلع کونسل کی سرکاری تقریبات اور سینما میں بھی پرفارم کیا کرتے تھے۔ اس سے پہلے تھل آرٹ اکیڈمی والے بھی خاصے متحرک تھے۔ ان فنکاروں میں سجاد حسین، غلام دستگیر عرف جی ڈی ھاشمی ، طاہر علی ھاشمی ، اور معروف کمپیئر خالد محمود اقبال (واپڈا) شامل تھے۔ یہ میں فلم پروڈکشن کا آغاز ۲۰۱۰ء میں فنکار وصدایت کا راصغر تابش کی فلم "لیہ داشیر سے ہوا۔ اس کے بعد تو جیسے پروڈکشن ہاؤسز پر فلموں کا میلہ سج گیا ہو۔ کہا جاتا ہے کو فلم لیہ داشیر جب سینمالیہ پر چلی تو جیسے کھڑکی توڑ رش ہی پڑ گیا ہو۔ ہر شو پر منتظمین تقریباً ۶۰ ہزار روپے تک کماتے رہے۔ یہ فلم ریکارڈ دو ہفتے چلی جس نے ہمیں سالہ پرانے سلطان راہی مرحوم کی فلموں کے ریکارڈ کو توڑ ڈالا۔ اصغر تابش کی بقیہ فلموں میں ڈو لئے، پتر لیہ دا لویر پھوپھیر، تیاں ہواواں، پنجابی فلموں میں جبر وڈا کو، و چھوڑا جڑاں دا عشق نہ پچھے ذات۔ بھٹی داویر ، شگناں دی مہندی شامل تھے۔ ان میں ملویر پھوپھیر، بلڈی نائٹ اور جبر وڈا کو کے ڈائر یکٹر ورائیٹر ایکٹر کمال گل ( قلمی نام المعروف کمال پاشا) تھے۔ موجودہ دیگر فنکاروں میں جاوید اقبال ، ماسٹر سعید رتین ڈائیریکٹر فلمیں ٹارگٹ ، دو شیرے، مرزا عباس بیگ آف چوک اعظم کو ڈائیریکٹرو ہیرو فلمیں عشق نہ پچھے ذات ، دھرتی را بوجھ، نعیم شیخ میجک پروفیسر، کامران جھکڑ سہیل کو ڈو، رمضان بلوچ، اسلم اچھو، عظیم سہیل مرحوم استاد محمد حسین ، امان راہی مرحوم محمد علی اختر آس، اعجاز، ملیحہ نعیم خان چانڈیہ ( سیاستدان کی مویز والے، خضر پریمی، حبیب، جگو ہسمندر خان ، ڈائیریکٹر نور تبسم ، عزیز چن، شکور پرنس، خالد شکیل عرف البا ( شاہین ایکو)، سلیم اختر اتو ، سرفراز وکی اور جمیل بلوچ مرحوم شامل ہیں۔ باہر سے سینئر آرٹسٹ فیضو کلکٹر باز، الطاف بوٹا، ماجد مون، خوشبو، ہمیرا چوہدری ، ادیب مرحوم پنجابی ولن۔ بابر، پرنس بوٹا اور آصف آف لیہ ضلع لیہ میں پر فارم کر چکے ہیں۔ پرانے فنکاروں میں صرف رانا حنیف چسکا اور کمال پاشا ( سٹارٹ بطور چائلڈ سٹار ۱۹۸۰ء) ہی ہیں جو ہنوز پر فارم کر رہے ہیں۔ باقی یا تو انڈسٹری چھوڑ گئے ہیں یا اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ لیہ کی تاریخ فنکاروں کی طرح پہلوانوں سے بھی مزین رہی ہے۔ اس سرزمین نے بڑے بڑے بہادر پہلوانوں کو جنم دیا ہے۔ معروف جھارا پہلوان کی لیہ آمد ( 1990ء) کے وقت رستم لیہ صابر پہلوان نے اپنے سے کئی گنا بڑے پہلوان جھارا کو چیلنج کر دیا تھا۔ مگر اُس نے سیف جٹ کو ہرانے میں مصلحت سمجھی تھی۔ ۲۰۰۷ ء میں بھولا بھالا پہلوان کے لیہ دنگل آنے پر کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو بھولا بھالا کو لا کار سکتا ہو۔ تا ہم بھولا بھالا نے لطف شاہ ملتانی کو ہرایا۔ لیہ کی دھرتی پر بھی ایسے شہ زور پہلوان بھی ہو گزرے ہیں جنھوں نے پورے برصغیر میں اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہوا ہے۔ ان میں استاد لی، جو تہ اور لبو پہلوان سر فہرست ہیں۔ ڈلی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں انگریزوں نے اپنی لڑکیوں کے رشتے کی آفر کی تھی تا کہ اُن کے ہاں بھی صحت مند بچے پیدا ہو سکیں۔ بو پہلوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے زہر دے کر مار دیا گیا تھا۔ دیگر پرانے پہلوانوں میں رمضان بابر ، منظور کھوکھر، اللہ بخش پہلوان ( والد پیپر ہوٹل لیہ ) ،کیوں کوڈو مگسی ( سابقہ رستم لیہ ) ، صابر پہلوان آف بھا گل اڈو، اکبر ( جناح پارک لیہ ) ریاض احمد مگسی ) چوبارہ) اللہ ڈتہ (چھٹا میل) ناصر آف جمن شاہ، خضر پٹھان سابقہ رستم لیہ، پٹنی پہلوان ، معراج ڈلو آف کوٹ سلطان، ہمتاز پہلوان آف کروڑ ٹھیکیدار خادم حسین شامل ہیں۔ مہنگائی اور میڈیا کے اس دور جدید تک آتے آتے کئی اکھاڑے اپنا وجود کھو چکے ہیں۔ مگر کئی ایسے اب بھی موجود ہیں جو نو جوان نسل کو مثبت و تفریحی سرگرمیوں کیجانب راغب کر رہے ہیں۔ ان میں اولین فضل پہلوان گرواں ( اس اکھاڑے کا ایک بچہ مستقبل میں رستم لیہ بنا چاہتا ہے ) ، فوجی گلزار، جلال آف کوٹ سلطان عون علیانی کچھ بیٹ لیہ، مولوی شاہ نوشہرہ و موجودہ رستم لیہ رزاق پہلوان آف فتح پور کے اکھاڑے اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ فعال ہیں۔ یہ اُس ثقافتی کھیل کو زندہ کیئے ہوئے ہیں جس کے متعلق ماضی قریب میں ڈھول کی تھاپ پر ایک منادی والا اعلان کیا کرتا تھا کہ حضرات آنیوالے جمعتہ المبارک کو بدھ منڈی اکھاڑہ پر امام بخش پہلوان پٹھہ ( شاگرد ) گاماں پہلوان کا مقابلہ رحیم بخش پہلوان سے بعوض ٹکٹ دس روپے منعقد کیا جائیگا۔
نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے