تھل کا کلچر اور ثقافت
وسیب میں ہونے والے میلے در حقیقت ایک دوسرے سے ملنے اور محبتیں بانٹنے کے ساتھ ساتھ علاقائی کلچر و ثقافت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، قدیم تہذیب کا امین صحرائے تھل حکمرانوں کی بے اعتنائی کا شکار تو ضرور ہے مگر تھلوچڑوں کی اپنے کلچر سے وابستگی ناقابل فراموش ہے ، اسی بناء پر تھل کے ہر شہر اور علاقے میں ہونے والے تاریخی میلوں میں ملک بھر سے لوگ بھر پور شرکت کرتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں ۔ ساتویں تھل جیب ریلی کا چار روزہ میلہ میں گھڑ سواری ، نیزہ بازی ، کبڈی میچ، آتش بازی ، میوزک شو بھی منعقد کئے جائیں گے ۔ ضلع کوٹ ادو اور ضلع لیہ کے درمیان 190کلومیٹر کا ٹریک تیار کر لیا گیا ہے ۔ تھل جیب ریلی کے ساتھ ضروری ہے کہ تھل کی آواز کو سنا جائے، بھکر سے ایم این اے ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ تھل کے عین وسط گوہر والا کے مقام پر سرائیکی مشاعرہ منعقد کراتے ہیں ، گزشتہ دنوں ہونے والا 34 واں سالانہ سرائیکی مشاعرہ تھا ، مشاعرے میں شعراء کی اکثریت نے مزاحمتی کلام پڑھا۔ تھل کے مسائل اور ناجائز آباد کاری کے حوالے سے بھی پڑھا گیا، شاعروں نے تھل کے ساتھ ساتھ چولستان اور دمان کے مسائل کا بھی بھر پور احاطہ کیا، اگر حکمرانوں کو فرصت ملے تو جیپ ریلیاں کرانے کے ساتھ ساتھ تھل ، چولستان اور دمان کی آواز سننے کی بھی کوشش کریں۔ تھل ڈویژن کا ایک عرصے سے سنتے آ رہے ہیں اب جبکہ کوٹ ادو ضلع بن گیا ہے ، میانوالی ، بھکر ، خوشاب اور لیہ کے اضلاع میں ایک نیا ضلع نکال کر تھل کے نام سے نیا ڈویژن بنانے کے علاوہ تھل یونیورسٹی ، تھل میڈیکل کالج ، تھل ٹیکس فری انڈسٹریل زون اور ایم ایم روڈ کو موٹر وے بنانے کے ساتھ ساتھ اسے میانوالی سے براستہ تلہ گنگ ، بلکسر موٹر وے سے ملانے اور اندرون تھل میانوالی ، تلہ گنگ کے درمیان سے مظفر گڑھ تک ایک نئی موٹر وے بنانے کی ضرورت ہے کہ تھل صدیوں سے محرومی اور حق تلفی کا شکار ہے۔ تھل جیپ ریلی کا ایونٹ ہو یا چولستان ڈیزرٹ ریلی ، اس سے کسی کو اعتراض نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تھل کی تاریخ ، ثقافت اور جغرافیے کا ادراک بھی بہت ضروری ہے کہ تھل ریت کا ایسا دریا ہے جو وسیب کے اضلاع میانوالی ، بھکر ،خوشاب ، لیہ ، جھنگ سے گزر کر مظفر گڑھ آ پہنچتا ہے۔ وسیب کے لوگ ریت کے دریا تو کیا ریت کے ایک ایک ذرے سے پیار کرتے ہیں، تھل کا جغرافیہ ایک مثلث کی شکل میں ہے جس میں میانوالی ، بھکر ، خوشاب، جھنگ، لیہ اور مظفر گڑھ کے اضلاع آتے ہیں ، بھکر کا حصہ زیادہ ہے جبکہ مظفر گڑھ تھل کا ٹیل ہے، تھل کے لوگ سیدھے سادے اور سچے لوگ ہیں ، ان میں انسانوں سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ،بھیڑ بکریاں پالناان کا گزر اوقات ہے، گائے بھی رکھتے ہیں ، جبکہ اونٹ کو تھل میں بہت اہمیت حاصل ہے، اسے صحرائی جہاز کہا جاتا ہے، اونٹ ان کی کمزوری بھی ہے اور اونٹ سے وہ ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں۔ تھل کے بارے میں بہت سی روایات ہیں ، ایک روایت کے مطابق صدیوں پہلے یہاں دریا بہتا تھا، دریا نے رخ بدلا تو یہ علاقہ صحرا میں تبدیل ہو گیا،یہ بھی روایت بیان کی جاتی ہے کہ یہ علاقہ ہزاروں برس پہلے سمندر کا حصہ تھا، تھل میں آپ جائیں تو تھلوچی یا تھلوچڑوں کو اب بھی امید ہے کہ روٹھا ہوا دریا ایک دن مان جائے گا اور دریا بہتا رہے گا اور تھل ایک بار پھر سرسبز شاداب وادی بنے گا۔ جغرافیائی لحاظ سے بھکر کا بیشتر علاقہ ریگستان ’’ تھل ‘‘ پر مشتمل ہے،دریائے سندھ کے مشرقی کنارے اور جنوب میں وسیع صحراتھل دور تک پھیلا ہوا ہے۔ صحرا کو آباد کرنے کیلئے 1949ء میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی ، بھکر اس کا صدر مقام رہا، تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے تھل کو آباد کرنے کے نام پر کہا گیا کہ تھل کینال بنے گی ، ایک تہائی رقبہ تھل کینال کے اخراجات کے طور پر لیا جائے گا اور نہر بننے کے بعد دو تہائی رقبہ مالکان کو واپس کر دیا جائے گا۔ نہر بننے کے بعد یہ ہوا کہ نہر کے آس پاس کے رقبے آبادکاروں کو دیدئیے گئے، تھل جو کہ محبت کی سرزمین تھی آج یہاں زمینوں پر قبضوں کا کاروبار ہوتا ہے یا پھر پرندوں کا شکار ۔ محکمہ جنگلی حیات پنجاب نے صوبے کی مختلف تحصیلوں میں یکم دسمبر دو ماہ کیلئے تیتر کے شکار کی اجازت دیدی ہے۔تھل اور چولستان کو سب سے زیادہ برباد شکاریوں نے کیا ہے ، ان علاقوں میں شکار پر مستقل پابندی ہونی چاہئے، حکومت کے اقدام سے معاملہ الٹ گیا ہے، شکار کی اجازت کے معاملے پر وزیر اعلیٰ کو نظر ثانی کرنی چاہئے اور ملک کے فطری حسن کو برقرار رکھنا چاہئے۔ جیپ ریلی منعقد کرانے والے چلے جاتے ہیں مگر وہ نہیں سمجھتے کہ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی تھل و چولستان اور وسیب کے دوسرے علاقوں میں مسافر پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ پرندے سائبریا اور دوسرے علاقوں سے ہجرت کر کے امن کی تلاش میں آتے ہیں مگر افسوس کہ شکاری قاتل ان کے آنے سے پہلے ہی مورچہ زن ہو جاتے ہیں ، سابقہ ادوار میں جتنے بھی حکمران آئے یا تو وہ خود شکاری تھے یا پھر مراعات یافتہ طبقے کو شکار کی سہولتیں دینے والے تھے ۔روہی و تھل پرندوں اور قیمتی جانوروں کے لئے مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔ تھل اور چولستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے، دریاؤں کی فروختگی کے بعد وسیب کے صحراؤں میں مزید صحرا وجود میں آ رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کئی دفعہ انہی سطور میں لکھا کہ پانی کا نام زندگی اور زندگی کا نام پانی ہے، دریا ہندوستان کو دے کر ظلم کیا گیا، قدرت کے اجزاء ناقابل فروخت ہوتے ہیں ، اسی طرح ہوا، روشنی ، دریا اور پانی فروخت نہیں کئے جا سکتے ۔ اس حوالے سے پاکستانی دریاؤں کا سودا نظام قدرت کے خلاف بغاوت ہے۔ ہندوستان سے مذاکرات کرکے زیادہ نہیں تو اتنا تو پانی حاصل کر لیا جائے کہ علاقے کی تہذیب اور آبی حیات زندہ رہ سکے، تھل جیپ ریلی منعقد کرنے والوں کو ان کے مسائل کا ادراک کرنا چاہئے
بہ شکریہ روزنامہ 92 نیوز