کوٹ ادو آج بھی اپنی حالت سنورنے کا منتظر
کوٹ ادو قدیم تاریخی شہر ہے‘کوٹ ادو کی بنیاد میرانی سردار ادو خان نے 15ویں صدی میں رکھی اور شہر کی حفاظت کیلئے فصیل تعمیر کرائی جوکہ وقت کے ساتھ منہدم ہوکر رہ گئی‘کوٹ ادو کا پہلا نام ’’ادودا کوٹ‘‘تھا بعد میں کوٹ ادو میں تبدیل ہوگیا‘1849ء تک یہاں مغل‘مسادات‘افغان حکمرانوں جوکہ ہندوستان پر حکمران کرتے تھے کے نمائندے شہر پر حکومت کرتے رہے 1849ء میں حکومت برطانیہ کے قبضہ کے بعد کوٹ ادو بھی انگریز عملداری میں شامل ہوگیا اور قیام پاکستان تک انگریز حکومت کا قانون چلتا رہا‘قیام پاکستان کے بعد اس علاقے پر گورمانی خاندان چھاگیا‘اور نواب مشتاق احمد خان گورمانی گورنر مغربی پاکستان وفاقی وزیر امور کشمیر رہے‘1962ء میں کھر خاندان کا علاقائی سیاست پر غلبہ ہوا اور ملک غلام مصطفی کھر ایم ایل اے منتخب ہوگئے اور ایوب خان کی جماعت کنونشن مسلم لیگ میں شامل رہے‘بعد ازاں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے‘ان کا شمار پیپلز پارٹی کے بنیادی ارکان اور ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا رہا‘1971ء میں گورنر پنجاب اور1973ء کا آئین نافذ ہونے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب بنے‘بے نظیر دور حکومت میں وفاقی وزیر پانی وبجلی رہے‘ان کے بھائی ملک غلام غازی کھر ضلع چیئرمین وایم این اے رہے جبکہ مرتضیٰ کھر‘نور ربانی کھر عربی کھر بھی منتخب ہوتے رہے‘1985ء میں نوجوان سیاسی شخصیت اور ہنجرا خاندان کے چشم وچراغ ملک سلطان محمود ہنجرا کوٹ ادو ومضافاتی علاقوں پر مشتمل حلقہ سے ایم پی اے منتخب ہوئے اور1999ء تک ایم پی اے منتخب ہوتے رہے‘صوبائی خصوصی معاون بھی رہے‘ضلعی حکومتوں کے نظام میں ضلع مظفرگڑھ کے پہلے ضلع ناظم منتخب ہوگئے‘انہوں نے ایم پی اے‘صوبائی خصوصی معاون اور ضلع ناظم کی حیثیت سے علاقہ کے لوگوں کی بھر پور خدمت کی اور ضلع بھر میں رابطہ سڑکوں‘گلیوں‘سکولوں‘ دیہی مراکز‘صحت کے جال بچھوادئیے‘علاقہ کے لوگوں کی بجلی‘سوئی گیس کی سہولتیں فراہم کیں اور عوام کے اجتماعی وانفرادی مسائل حل کرائے اور پورے ضلع مظفرگڑھ کی طاقتور ترین سیاسی شخصیت کے طور پر ابھرے‘جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ہونے والے جنرل الیکشن میں ملک سلطان محمود ہنجرا کے بھتیجے ملک احمد یار ہنجرا ء جوکہ نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انتہائی ملنسار شخصیت کے مالک ہیں حلقہ پی پی 251سے ہیٹرک کرتے ہوئے3 بار ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے،نئی حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن2018میں وہ پی ٹی آئی کے امیدوار اشرف خان رند سے شکست کھا گئے،تحصیل کوٹ ادو کے قریشی خاندان کے غلام عباس قریشی، میاں امجد عباس قریشی بھی اقتدا ر کے ایوانوں تک پہنچے، مسز خالدہ محسن علی قریشی اور میاں محسن علی قریشی ایم این اے منتخب ہوئے،ملک نور ربانی کھر کی صاحبزادی حنا ربانی کھروزیر خارجہ کا قلمدان سنبھالے رہی ہیں،ملک غلام مصطفی کھر، ملک طاہر میلادی کھر بھی ایم پی اے منتخب ہوتے رہے اورقومی الیکشن 2018میں حلقہ این اے 181 سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے والے ڈاکٹر میاں شبیر علی قریشی نے سابق ایم این اے الحاج ملک سلطان محمود ہنجراء کو شکست دیکر ایم این اے اور پی پی 278سے اشرف خان رند نے سابق صوبائی وزیر جیل خانہ جات ملک احمد یار ہنجراء کو شکست دیکر ایم پی اے منتخب ہو گئے،ڈاکٹر میاں شبیر علی قریشی وفاقی وزیر مملکت ہاؤسنگ اینڈ ورکس اپنے علاقہ میں بڑی تیزی سے ترقیاتی کام کر آرہے ہیں جن میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں بجلی کی فراہمی کے منصوبے شامل ہیں جبکہ سردار اشرف خان رند صوبائی پارلیمانی سیکرٹری بھی اپنے حلقہ میں ترقیاتی کام کرا رہے ہیں خاص طور پر کوٹ ادو کو فوکس کر رکھا ہے، شہر کی گلیوں میں ٹف ٹائل لگوا رہے ہیں،دوسری طرف ترقیاتی کاموں کے باوجود بھی کوٹ ادو کے تمام مسائل حل نہیں ہو سکے،میونسپل اسٹیڈیم آج تک مکمل نہیں ہو سکا جس سے کھیلوں کے فروغ میں بڑی رکاوٹ درپیش ہے کیونکہ کھیلوں کے میدان موجود نہیں اور نوجوان نسل صحت مندانہ سرگرمیوں سے دور ہوتی جا رہی ہے، سیوریج کا مسئلہ شہر میںگھمبیر صورت اختیا ر کر چکا ہے، سیوریج کا نظام نہ ہونے سے شہر کے گلی محلے گندے پانی سے بھرے رہتے ہیں اور متعدد جگہوں پر گندے پانی کے تالاب بن چکے ہیں،شہر کے تمام تفریحی پارکس اجڑ کر کھنڈرات کا نمونہ پیش کر رہے ہیں، گرین بیلٹس موجود نہیں،تفریحی پارکس نہ ہونے سے شہریوں کو تفریحی سہولیات میسر نہیں ہیں ا ور ماحولیات آلودگی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد بیماریاں جن میں جلدی امراض سمیت سانس، گلے اور دمے کی بیماریاں شامل ہیں پھیل رہی ہیں، واٹر فلٹریشن پلانٹس نہ ہونے کے برابر ہیں ا ور آلودہ پانی کے استعمال سے شہری مرد و خواتین بچے پیٹ و معدے کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں،شہر کے متعدد گنجان آباد علاقے جن میں لودھی ٹاؤن بھی شامل ہے سوئی گیس سے محروم ہیں اور ڈیمانڈ نوٹس جمع ہونے کے باوجود صارفین سوئی گیس کے کنکشن سے محروم ہیں،سکارپ ٹیوب ویلز کی بندش اور خاتمے کے بعد لاکھوں ایکڑ اراضی سیم کا شکار ہو چکی ہے اور سیم شہری علاقوں تک پھیلنے لگی ہے، ای اے ایس لعل پیر سٹیشن، پی ایس او آئل ڈپو اور درجنوں آئس،جننگ، آئل، رائس اور بنولہ سے تیل بنانے کی فیکٹریوں سمیت 2شوگرملز، 4فلور ملز، 4ٹیکسٹائل ملز موجود ہیں جبکہ او جی ڈی سی کا بیس کیمپ بھی موجود ہے مگر یہاں پر بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے اور ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لئے روزگار کی تلا ش میں مار ے مارے پھر رہے ہیں مگر انہیں روزگار نہیں مل رہا، حکومتی اداروں میں بھی بے روزگار نوجوانوں کیلئے ملازمتوں کے دروازے بند ہیں جس سے نوجوان نسل اپنے مستقبل سے مایوس ہو چکی ہے،مذکورہ مسائل کے علاوہ بھی شہری متعدد مسائل سے دوچار ہیں گلیوں میں سولنگ نالیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،کوٹ ادو شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ٹریفک کا بھی بے تحاشا دباؤ پڑھ چکا ہے، کوٹ ادو شہر کے عین وسط سے گزرنے والی اہم شاہراہ جی ٹی روڈ پر تجارتی مراکز سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے دفاتر کے علاوہ بس کے اسٹینڈ بھی قائم ہیں ،جی ٹی روڈ پر ٹریفک کی صورتحال ابترہوچکی ہے، ٹریفک بلاک رہنا معمول بنا ہوا ہے، بس اڈوں کو شہر سے باہر منتقل کرنا ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ ٹریفک کا نظام رواں دواں ہو سکے۔