تحریکِ پاکستان کا عظیم نوجوان رہنما
یکم اکتوبر بمطابق 27 رمضان المبارک 1915ء قبیلہ عیٰسی خیل ضلع میانوالی میں عبد الستار خان نیازی پیدا ہوئے؛ والد کا نام ذاولفقار علی خان تھا، آپ پٹھان قبیلہ عیسٰی خیل کی شاخ سے تھے – گھرانہ زمیندار ہونے کے ساتھ ساتھ اولاد کی تربیت سے شغف، عصری و دینی تعلیم کی اہمیت سے بہرہ مند و آقائے دو جہاں(ﷺ) سے شدید محبت و عشق رکھنے والے تھے- سن ابھی تین یا چار کا ہی تھا کہ عبدالستار خان نیازی شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے، پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری نانا جان صوفی محمد خان اور تایا ابراہیم خان نے سنبھالی اور صرف سنبھالی ہی نہیں، خوب نبھائی بھی جس کا ثبوت آپ کی زندگی ہے – آپ ابھی کم سن ہی تھے غالباً کلاس سوم یا چہارم کے طالب علم تھے کہ والدہ ماجدہ کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا- سن چھوٹا اور دکھ بڑا تھا لیکن تعلیم سے پیچھے نہیں ہٹے، نمایاں نمبروں سے امتحانات پاس کرتے رہے، پرائمری سے میٹرک تک وظیفہ بھی حاصل کیا اور محض 13 سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کر لیا- میٹرک کے بعد میانوالی میں تعلیم کی وہ سہولیات نہ تھیں جو لاہور جیسے شہر میں تھیں اس لئے تعلیم کے تسلسل کو جاری رکھنے کیلئے لاہور کا قصد کیا اور اشاعت اسلام کالج لاہور میں داخلہ لیا- دین و مذہب سے شغف رکھنے کے باعث قرآن پاک، حدیث، فقہ، سیرت، تقابل ادیان، اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی تحریکات کے موضوعات پر دو سال میں کورس مکمل کیا اور اسی سال میانوالی واپس آ گئے، اس وقت عمر 15 سے 16برس تھی- لیکن پختگیٔ فکر سن رسیدہ افراد سے بڑھ کر تھی اور ہوتی بھی کیوں نہ جب کہ آپ علامہ اقبال ؒ سے متاثر تھے اور آپ کے خیالات و افکار آپ کے دل پر نقش تھے- غلامی اور مسلم قوم کے دیوالیہ پن، مفلسی اور احساسِ زیاں کا احساس آپ کے سینے میں تھا، آپ کی انقلاب آفرینی حق گوئی اور بے باکی انہی خیالات کی بدولت تھی، دورِ طالب علمی میں ہی آپ کی شخصیت جدا و منفرد تھی بقول سعدی:
’’بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال‘‘
’’بزرگی عقلمندی سے ہے نہ کہ عمر سے‘‘ –
اس کم سن بزرگ نے اس کم سنی میں ہی بجائے کُڑہنے اور اپنی سوچ کو گہن لگانے کے عملی اقدام پر زور دیا اور عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی کی عملی تفسیر بنتے ہوئے میانوالی میں ’’انجمن اصلاح قوم‘‘جسے بعد میں ’’انجمن اصلاح مسلمین‘‘ کا نام دیا گیا کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس نے ضلع میانوالی میں دینی، معاشرتی و اقتصادی تعلیم و تربیت کے ضمن میں بہت تعمیری کام سر انجام دیا -یاد رہے! یہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے تقریبا سولہ سترہ سال پہلے کا زمانہ ہےجب کاروبار پر سود خور ہندؤں کا اجارہ تھا -چھوٹے سے چھوٹا کاروبار بھی انہی کی ملکیت تھا، مسلمان تاجروں اور دوکانداروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی -حالانکہ کئی علاقوں میں تعداد میں مسلمان ان پر برتری رکھتے تھے- مسلمانوں کو کاروبار کی طرف مائل کرنے کی سعی کی تاکہ سود سے مسلمانوں کی جان چھوٹ سکے اور اقتصادی طور پر مسلمان مضبوط ہو سکیں اور ہندوں کی بالا دستی اور بد ’’معاشی نظام‘‘ سے بچ سکیں – مسجد کی دینی اور معاشرتی اہمیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جامع مسجد صدر بازار عیسی خیل میں ایک دار العلوم کی بنیاد رکھی- تبلیغی دوروں کے لئے مبلغین تیار کیے گئے-
سیاسی زندگی اور تحریک پاکستان کے لئے خدمات:
1936ء میں ادھوری تعلیم کو مکمل کرنے کیلئے ایک بار پھر لاہور کا رخ کیا اور اسی سال سیاست کا آغاز بھی کر دیااس وقت عمر 21 برس تھی- آغاز سیاست کے محرکات انتہائی دلچسپ ہیں – ماہ نومبر 1936 بریڈ لاء ہال لاہور میں ’’پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘(اس طلباء تنظیم میں ہندو، عیسائی، سکھ، مسلمان سب مذاہب کے لوگ شامل تھے ) کا اجلاس ہوا جس کا عنوان تھا’’Impeachment of M-A Jinnah‘‘ (جناح کا مواخذہ)- مذکورہ جلسہ میں پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن اور اس کے عہدیدار قائد اعظم پر تحریک آزادی کے مخالف اور ملک کا غدار ہونے کا الزام لگانے جا رہے تھے تاکہ قائد اعظم کو بدنام کیا جائے، طلبہ ان کے مخالف ہو جائیں اور قائد اعظم کی موثریت پر اثرانداز ہوا جائے کیونکہ جس کے خلاف طلباء ہو جائیں اسے تحریک چلانے میں بہت مشکل پیش آتی ہے- پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر سر سکندر حیات کا نواسہ اور نواب مظفر خان کا بیٹا نواب زادہ مظہر علی خان تھا- جلسے کے اشتہار چھپے، بانٹ دیئے گئے اورمختلف کالجز بشمول اسلامیہ کالج لاہور میں چسپاں کر دیے گئے – اقبال و جناح کے سپاہی بے چین ہو گئے عملی سطح پر اس کو ناکام بنانے کے لئے مشاورت ہوئی مشاورت میں مجاہد ملت عبد الستار خان نیازی، معروف صحافی و بانی نوائے وقت حمید نظامی، عبد السلام خورشید، میاں محمد شفیع، جسٹس ریٹائرڈ انوار الحق اور مولوی ابراہیم چشتی شامل تھے – مشورے کے بعد مجاہد ملت رفقاء کے ساتھ اس جلسے میں پہنچ گئے اور آگے کی نشستوں پر قبضہ جما لیا- جلسہ کا آغاز ہوا، سیکرٹری نے اعلان کیا کہ محمد علی جناح آزادی اور ملک کا دشمن ہے ہم اس کی مذمت کے لئے جلسہ کا آغاز کرتے ہیں-ادھر اعلان ہوا ادھر نیازی خون کا جوش اپنے عروج پر پہنچا لمبا چوڑا سرخ وسفید نیازی کھڑا ہوا اور اپنی پاٹ دار آواز میں مختصر سا پوائنٹ آف آرڈر اٹھایا- ’’یہ کس کا فیصلہ ہے‘‘؟ جلسہ انتظامیہ کی جانب سے جواب ملا ’’ہمارا‘‘- مولانا عبدالستار خان نیازی نے جواب دیا ہم نہیں مانتے، اگلی نشستوں پر تھے آناً فاناً سٹیج پر چڑھ گئے مائک پر قبضہ کیا اور اپنے جوش و جذبات سے لبریز لہجے میں ایک مختصر سا خطاب کر دیا کہ:
’’سنو!اگر کسی شخص نے اس جلسہ میں ہمارے لیڈر قائد اعظم کے خلاف ایک لفظ بھی کہا تو ہم برداشت نہیں کریں گے اور میں اس کو قتل کر دوں گا‘‘-
یہ اندازِ تخاطب، ایسے الفاظ کا چناؤ اور جوشیلہ لب و لہجہ جو چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اس نے جو کہا سچ کہا ہے اور اس کی گواہی ہال میں موجود سب افراد کے دل یقیناً دے رہے تھے ورنہ کوئی ایک مائی کا لعل تو کچھ کہتا ، منتظمین گھبرا گئے اور پوچھا کہ چاہتے کیا ہو؟ قائد و اقبال کے سپاہیوں نے کہا کہ جلسہ میں تمام لوگ فیصلہ کریں ریفرینڈم کراؤ کہ قیادت ایم اے جناح کر سکتے ہیں یا موہن داس کرم چند گاندھی؟ یہ بات سن کر ماحول بدل گیا، جلسہ مناظرے میں تبدیل ہو گیا، بحث شروع ہو گئی، ان کی اکثریت تھی انہوں نے گاندھی کے حق میں فیصلہ دیا کہ گاندھی رہبری کر سکتا ہے- اس کے بعدمجاہد ملت نے اپنے ساتھیوں کو بلایا اور کہا آج اللہ تعالی نے لاج رکھ لی ہے ( یعنی قائد اعظم کی ذات جلسے میں مواخذہ سے بچ گئی ہے) لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہو گا، ہمیں ایک تنظیم بنانی چاہیئے-
مسلمان طلباء کی تنظیم پر مجاہد ملت کے ساتھیوں نے مخالفت کی اور بحث کا آغاز ہوا کہ اگر ہم صرف مسلمان طلباء کی تنظیم بنائیں گے تو لوگ ہمیں فرقہ پرست ( برٹش ہند میں قوم یا مذہب کو فرقہ بھی کہا جاتا تھا) رجعت پسند کہیں گے اور ہماری تنظیم ناکام ہو جائے گی- مجاہد ملت نے کہا یوں تو لوگ مسلم لیگ کے خلاف بھی ہیں یہ خوامخوہ بکواس کرتے ہیں ان کی بکواس کو اہمیت نہ دو اور الگ جماعت بناؤ- فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا، بحث کو سمیٹنے اور فیصلہ کی غرض سے علامہ اقبال ؒ کے پاس جانے کا فیصلہ ہوا ( ہائے ! کیسے کیسے رہنما میسر تھے ان کو گویا شبانی سے کلیمی دو قدم تھی) – اسی وقت تمام لوگ علامہ اقبال ؒ کے پاس جاوید منزل پہنچ گئے-مغرب کی نماز ہو چکی تھی علامہ کشمیری شال اوڑھے ایک صوفے پر بیٹھے تھے- علامہ کو سلام کیا گیا انہوں نے جواب کے بعد اپنے مخصوص پنجابی لہجے میں پوچھا:
’’منڈیو! کادے لئی آئے او‘‘؟
لڑکو! کیا مقصد لے کے آئے ہو؟
سارا واقعہ گوش گزار کیا گیا اور مجاہد ملت عبدالستار خان نیازی کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا کہ یہ لڑکا کہتا ہے ہمیں مسلمانوں کی علیحدہ طلباء تنظیم بنانی چاہیئے جبکہ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ لوگ ہمیں تنگ نظر، فرقہ پرست، رجعت پسند کہیں گے آپ ہمارا فیصلہ کر دیں –
علامہ اقبال نے مجاہد ملت کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا ’’یہ لڑکا ٹھیک کہتا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں تم اپنی الگ جماعت بناؤ‘‘- یوں علامہ اقبال کی ہدایت اور حمایت پر ’’پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا – یاد رہے کہ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سٹوڈنٹ ونگ سے الگ اور خود مختار طلبہ تنظیم تھی –
قائد سے ملاقات و رابطہ کا ذکر:
یوں اگلے دن اسلامیہ کالج ریلوئے روڈ لاہور کے سٹاف روم میں اجلاس ہوا اور پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن قائم ہوئی جس کا صدر جسٹس ریٹائرڈ انوار الحق ( اس وقت طالب علم تھے) کچھ دنوں بعد محمد شفیع پھر حمید نظامی اور 1938ء میں مجاہد ملت پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے-1939ء میں مجاہد ملت نے خلافت پاکستان کی سکیم پیش کی- اسی دوران عریبک کالج دہلی میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا جہاں آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری نوبزادہ لیاقت علی خان مجاہد ملت سے ملے اور کہا کہ آج میری کوٹھی گل رعنا ہارڈنگ ایونیو نئی دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی دستوری کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے، آپ بھی شرکت کریں- اس اجلاس میں مجاہد ملت کی قائد اعظم محمد علی جناح سے پہلی ملاقات ہوئی آپ نے اپنی خلافت پاکستان اسکیم قائد کو پیش کی- مجاہد ملت کی پیش کردہ اسکیم میں پاکستان کا نقشہ پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان اور آزاد کشمیر سے شروع ہو کر دہلی آگرہ لکھنو ، گنگا، جمنا سے ہوتا بنگال اور آسام سے مل کر مکمل ہوتا تھا اس طرح مشرقی اور مغربی پاکستان دو الگ الگ ٹکڑوں کی بجائے ایک عظیم الشان اسلامی مملکت پاکستان بنتی تھی- مجاہد ملت اس جغرافیائی تقسیم پر ہی موقوف نہ تھے بلکہ اس مجوزہ ریاست میں خلافت راشدہ کی طرز کا نظامِ مصطفٰے(ﷺ) کے نفاذ کا عزم صمیم بھی رکھتے تھے- اس اسکیم کو 1939ء میں ایک پمفلٹ کی صورت میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن اخبار روڈ لاہور سے شائع بھی کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کیا؟ اور کیسے بنے گا؟ کے عنوان سے اپنے ساتھی میاں محمد شفیع کے ساتھ مل کر ایک کتاب بھی لکھی،عمر غالباً اس وقت 24 سال تھی-
1939ء میں جب مجاہد ملت نے دہلی میں قائد اعظم سے ملاقات کے دوران پنجاب مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کی جانب سے خلافت پاکستان سکیم پیش کی اس سکیم کو دیکھ کر قائد مسکرائے اور فرمایا:
“Your scheme is very hot”.
’’یہ سکیم تو بہت گرما گرم ہے‘‘-
(نوٹ:قائد کے الفاظ کا وہ ترجمہ جو آپ کے مافی الضمیر میں تھا کافی سوچ و بچار کے بعد کرنے سے قاصر ہوں اس پر معذرت قبول کیجئے یہی حال مجاہد ملت کے جواب کے سلسلے میں بھی ہے)
’’مجاھد ملت نے جواب دیا ‘‘
“Because it has come out from a boiling heart”.
’’یہ اس لئے گرماگرم ہے کہ اک اُبلتے (سلگتے)دل سے نکلی ہے‘‘-
قائد اعظم اس پر بہت خوش ہوئے اور اس سکیم کو مسلم لیگ کی متعلقہ کمیٹی کو بھیجنے کا وعدہ کیا-
1941ء میں مجاہد ملت نے تعلیم مکمل کر لی اور اسی اثنائے میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جو کہ مسلم لیگ کی طلبہ تنظیم تھی کے جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے – اسی سال مشہو ر زمانہ ’’پاکستان کانفرنس‘‘ کا قائد اعظم کی زیر صدارت اسلامیہ کالج کے گراونڈ میں ا نعقاد ہوا- مرکزی قرار داد مجاہد ملت نے پیش کی جب مجاہد ملت کی جذبات سے بھرپور گونج دار آواز گونج رہی تھی جلسہ گاہ میں موجود فرزندان توحید بھی پورے جوش و جذبے کے ساتھ اپنے ہاتھ اور بازو ہوا میں لہرا لہرا کر آپ کی تائید کر رہے تھے- قائد اعظم انہماک سے مجاہد ملت کو سن رہے تھے- بعد از تقریر قائد اعظم نے ایک مسلم لیگی رہنما سے فرمایا:
“After this speech I am confident that If these young men are with me, we will achieve Pakistan In sha Allah!”
’’اس تقریر کو سن کر ( اس جوش و ولولہ کو دیکھ کر) میں پُر یقین ہوں- اگر ایسے نوجوان ہمارے ساتھ ہیں تو ہم پاکستان حاصل کر کے رہیں گے، انشاللہ!‘‘
ادھر مجاہد ملت کا حال یہ تھا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، یہ 1944 کا واقعہ ہے قائد اعظم لاہور تشریف لائے رات کو آپ کی زیر صدارت جلسہ عام ہوا مجاہد ملت نے اپنے مخصوص جوش و جذبہ سے بھرپور لہجہ میں خطاب کیا اور انتہائی بے باکی سے حکومت پر تنقید کی اور پاکستان کی مدلل وکالت- جلسہ کے بعد قائد اعظم نے فرمایا:
“You are still very hot”.
’’تم ابھی بھی بہت گرم ہی ہو ‘‘-
مجاہد ملت نے جوابا کہا: ’’حضور! ماحول کو بھی تو پگھلانا ہے نا‘‘-قائد نے ہنس کر فرمایا: بہت اچھے! مسلسل آگے بڑھے چلو-
آپ نے 1944ء میں پنجاب مسلم لیگ کونسل میں اسلامی شریعت کے نفاذ کی قرار داد منظور کرائی-1945ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل میں زکوٰۃ کی قرار داد منظور کروائی – 1946ء میں خضر حیات ٹوانہ کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور گورنمنٹ کی نوکری کو خیر آباد کہا اور حکومت مخالف پانچ ہزار افراد پر مشتمل جلوس نکالا، ایک بار پھر میاں عبد الباری کے بعد 1946ء میں پنجاب مسلم لیگ کے صدر اور منتخب ہوئے- یہی وہ وقت تھا جب مفاد پرست مسلم لیگ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ میں شامل ہو رہے تھے مجاہد ملت نے اپنے رفقاء کے تعاون سے ان سازشی کیمونسٹ عناصر کو مسلم لیگ سے نکالنے کے لئے قرار داد پیش کی جس کے منظور ہونے پر کامریڈ کیمونسٹوں کی مسلم لیگ سے چھٹی ہوئی- جولائی 1946ء میں مجاہد ملت کی جگہ ایک اور مسلم لیگی رہنما کو مسلم لیگ کا ٹکٹ مل گیا اس پر مجاہد ملت اور آپ کے شاگردوں نے بلند صدائے احتجاج پیش کی، معاملہ قائد اعظم تک پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ 1941ء میں مَیں ضمنی انتخابات میں ایک اس نوجوان نے ایک اصولی جنگ لڑی[1]اور ایثار و قربانی کا فقید المثال مظاہرہ کیا اسے ٹکٹ ضرور ملنا چاہیے- اس طرح قائد اعظم کی مداخلت سے آپ نے میانوالی سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے –
25 فروری 1947ء کو مجاہد ملت حکومت مخالف سول نافرمانی کی تحریک میں ایک زبردست جلوس کی قیادت اور دفعہ 144 کو توڑا اور 28 فروری کو گرفتار ہوئے – بالآخر اگست 1947ء میں پاکستان معرض ِوجود میں آگیا – قیام پاکستان کے بعد مجاہد ملت ارباب اقتدار کے پاس اپنی کوئی غرض لے کر نہیں گئے- بقول علامہ اقبالؒ:
قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطان کی درگاہ
قیامِ پاکستان کے بعد مجاہد ملت کے جہد کی ایک الگ داستان ہے جس کا ایک ہلکا سا اجمالی جائزہ مضمون کے آخرمیں پوائنٹس کی صورت میں دیا گیا ہے- مجاہد ملت پر مضمون کو سمیٹتے ہوئے بس یہ عرض کرنی ہے کہ آپ کی شخصیت کو ایک مضمون میں سمونا تقریباً نا ممکنات میں سے ہے- آپ کی نعت، تصانیف، افکار، مائل بہ تصوف روحانی زندگی نظریہ پاکستان اور پاکستان سے آپ کی محبت کے بہت سے عملی مظاہروں سے صرف نظر کرنے کی وجہ مضمون کو طوالت سے بچاتے ہوئے تحریک پاکستان کے لئے آپ کی خدمات کا جائزہ ہے- حرف آخر 1946ء میں جب آپ قائد اعظم کی ایماء اور تائید کے باعث اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو آپ کی عمر محض 31 سال تھی- جب آپ ٹین ایج تھے اس وقت سے عفوان شباب کی عمر تک آپ کی زندگی انتہائی پختہ فکر اور قائدانہ صلاحیتوں کا شاخسانہ ہے – اختتام پر ایک بار پھر مجاہد ملت کی عمر کا تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ جان سکیں اور واضح ہو جائے کہ جب بانی پاکستان کو قائد اعظم کا لقب سے پکارا گیا تو اس کی وجہ کیا تھی- قائد اعظم کے قافلے میں جب نوجوانوں کی کیفیت یہ تھی تو ان بزرگ رہنماؤں کی پختگی اور ذہنی بلوغت و دور اندیشی کا اندازہ آپ خود کر یں جو قائد اعظم کے دیرینہ ساتھی تھے-مجھے امید ہے کہ جب آپ اپنے اسپ خیال کو ایڑ لگائیں گے تو جان جائیں کہ ’’قائد اعظم‘‘ آخر ’’قائد اعظم‘‘کیوں تھے اور حضرت علامہ اقبال نے اس لقب کے لئے آپ کو ہی کیوں منتخب کیا-
1۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے حسین شہید سہروردی کی پاکستان عوامی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی-1946ء اور 1951ء میں وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے-
2۔ 1953ء میں انہوں نے تحریک تحفظ ختم نبوت میں فعال کردار ادا کیا جس پر انہیں مارشل لاء کی ایک فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی-بعد ازاں یہ سزا 14 سال قید بامشقت میں تبدیل ہوگئی-
3۔ 1970ء کی دہائی میں انہوں نے جمعیت علمائے پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور اس کے سیکریٹری جنرل اور مرکزی صدر کے عہدے پر فائز رہے-
4۔ 1988ء اور 1990ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1994ء سے 1999ء تک سینٹ آف پاکستان کے رکن رہے- اسی دوران انہوں نے وفاقی وزیر مذہبی امور کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں-
5۔ وفات: 2 مئی 2001ء کو معروف سیاستدان، عالم دین اور جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما مولانا عبدالستار خان نیازی میانوالی میں وفات پاگئے-
[1]( 1941ء میں آپ نے سکندر حیات کے خلاف کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے سکندر حیات نے آپ کو رشوت اور دیگر حربوں سے دباؤ ڈالا لیکن آپ نے اس کی ایک نہیں سنی اور جب سکندر حیات نے قائد اعظم سے معذرت کر لی تو قائد اعظم کے ’’بلواسطہ‘‘ پیغام پر ہی کاغذات نامزدگی واپس لے لئے تھے آپ کے جوش و ولولہ کے ساتھ ساتھ آپ کی قائد اعظم کے ساتھ وفا اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط خلوص کے باعث قائد اعظم آپ سے متاثر تھے اور محبت بھی کرتے تھے-)