اردو و ہندی رسم الخطوں کی تاریخ
فونیقی رسم الخط
آج دنیا میں بے شمار رسم الخط میں لیکن ماہرین کی رائے کے مطابق اس کی ابتدا بحیرہ روم کے مشرقی مناحل پر تحریری تاریخ کی صبح نمودار ہوئی تو 3000 ق۔م کے آس پاس لبنانی ساحل ، مغربی شام اور جنوبی شام فلسطین میں ایک سامی گروہ آباد تھا جسے کنعانی کہتے تھے ۔ یہ تحریر دو بالکل ابتدائی اور کارآمد نظاموں کی ایجاد و ارتقا کے دو سو سال بعد کا واقعہ ہے۔ ان میں سے ایک دو آبہ دجلہ اور فرات کے طبریوں کا مخط مسیحی اور دوسرا مصریوں کا ہیرو غلافی یا تصویری رسم الخط تھا۔ تیسرے ہزار سال کے نصف اول میں لبنان میں فونیقی آباد ہو چکے تھے۔ کلاسیکی مصنفین نے ایک روایت محفوظ کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ فونیقی دراصل خلیج فارس کے خطے سے آئے تھے۔ ہیروڈوٹس کے بیان کے طابق فونیقیبحیرہآرتھر(TEAERYTHREAN) یعنی بحیرہ عرب کے علاقے سے دوسرے معنوں میں موجودہ پاکستانی ساحل کو اپنا اصلی وطن قرار دیتے تھے۔ لبنان میں فونیقیوں کو یونانیوں نے Fonix کہا ہے جس کے معنی ارغونی رنگ کے ہیں۔ یہ ایسے کپڑے پہنتے جن کا رنگ وہ ایک چھوٹی مچھلی سے حاصل کرتے تھے ۔ فوسیقی پہلے لوگ ہیں جنہوں نے بنی نوع انسان کو ایک واضح رسم الخط دیا جس سے بعد میں پوری دنیا کے لوگوں نے فیض حاصل کیا۔ موجودہ عربی ، یونانی اور دیوناگری بلکہ سبھی نے اسی خط سے خوشہ چینی کی ہے جس کی تفصیل دیئے ہوئے نقشے سے ظاہر ہے۔ فوسیقی اپنے زمانے کے نہ صرف بڑے جہاز ران تھے بلکہ انہوں نے بین الاقوامی تجارت کی بنیاد بھی ڈالی۔ ان کے جہاز انڈونیشیا اور ملائشیا سے گرم مصالحے، پاکستانی علاقے بھیر ہو خوشاب سے بھیٹر بکریاں ، مور، پھل، بحیرہ روم کی بندرگاہوں سور اور سیدا جوان کی ہی بسائی ہوئی تجارتی کوٹھیاں تھیں لے جاتے۔ پھر اس سے آگے یورپ میں پین، پرتگال، فرانس اور انگلینڈ تک مال لے جاتے اور وہاں کا مال لے آتے اور آگے افریقہ کے ساحل پر اپنی تجارتی کوٹھیوں تک پہنچاتے۔ یہ صدیوں تک عالمی تجارت پر چھائے رہے اور تجارتی راستوں کو صیغہ راز میں رکھتے۔
دوسری قوموں کو خطرناک راستے بتاتے تا کہ وہ تو میں بھی ان کے مقابلے میں نہ آسکیں۔ سکندراعظم نے بھی اپنی فتوحات کے سلسلے میں ان کی بحری طاقت سے نہ صرف فائدہ اٹھایا بلکہ بعد میں یہی یونانی ان سے راستوں کا راز پا کر ان کو نیچا دکھانے لگے۔
فونیقی اور ارغوانی رنگ
فونیقیوں کو یہ بھی اعزاز ہے کہ انہوں نے دنیا کو ارغوانی رنگ سے روشناس کرایا۔ وہ یہ رنگ سمندری مچھلی سے حاصل کرتے تھے اور یہ رنگ اتنا مقبول ہوا کہ یونانی بادشاہوں کے لئے مخصوص سمجھا جانے لگا۔ رومی شہنشاہ ارغوانی چغد نشان اقتدار کے طور پر پہنتے تھے۔ بزنطینی عورتیں بچے جنتی تھیں تو انہیں ایک خاص کمرے میں پہنچا دیا جا تا جوارغوانی رنگ کے کپڑوں سے آراستہ کیا ہوا ہوتا۔ یہودیوں کا سب سے بڑا ند ہبی پیشوائی کے خاص نشان کے طور پر ارغوانی لباس زیب تن کرتا تھا۔ یہی لباس شام کا ارامی پیشوا اور کیتھولک فرقے کا عیسائی اسقف اعظم بھی ابھی تک خاص موقعوں پر پہنتا ہے۔ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ بدھ بھکشو بھی اسی رنگ کا مذہبی لباس ابھی تک پہنتے ہیں۔ بدھ مت اور فونیقیوں کے عروج کا زمانہ تقریباً ایک ہی ہے۔ فونیقیوں کے متعلق یہ روایت عام ہے کہ ان کا اصل وطن وسطی پنجاب تھا۔ ان کے بحری سامان کے نشانات ابھی تک ہمارے قدیم کھنڈروں میں ہاتی ہیں جن میں خاص کر سمندری گھونگوں کی چوڑیاں ہیں ۔ بقول ڈاکٹر سلیم کے یہ دریائی سفر کے ذریعے یہاں تک پہنچاتے تھے اور یہاں سے مور گرم مصالحے پھل ، غلام دور تک پہنچاتے تھے۔ فلسطینی بھی اس زمانے میں ایک بڑی طاقتور قوم تھی ۔ اسی نے سب سے پہلے لوہے کا استعمال کیا اور ان سے بعد میں فونیقیوں نے سیکھ کر جہاز بنانے کی صنعت میں استعمال کیا۔ حضرت جالوت اسی قوم سے تھے جو لو ہے کے زرہ بکتر بناتے تھے۔ ان کا ہندو مذہب سے کوئی تعلق نہ تھا کیونکہ ہندوتو بحری سفر کو گناہ ( پاپ ) سمجھتے تھے بلکہ ہندوؤں نے ہی ان سے سورج دیوتا کا تصور اپنایا۔ آریہ (ہندو) ان کے دشمن تھے۔ ان کازمانہ اتنا اہم تھا کہ ان کا ذکر انجیل کے ستائیسویں باب میں ان کی بحری اور بری آمد ورفت کی کیفیت نہایت دل نشین انداز میں بیان کی ہے۔ یہ ہسپانیہ سے چاندی ، لوہا، بٹن اور سیسہ، آئی اونیا سے غلام اور پیتل کے ظروف ، مصر سے پار چات اور عرب سے بھیٹر بکریاں درآمد کرتے تھے۔ ان کے قافلے ہر جگہ پہنچتے تھے۔ رگ دید جو ہندوؤں کی سب سے قدیم مذہبی کتاب ہے، فیقوں کا ذکر ہے کہ ان کے سوچپوؤں والے جہاز ہوتے جن کے بادبان بھی ہوتے تھے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس اتنے اہم قبیلے کا ہماری تاریخ کی کتابوں میں کہیں ذکر نہیں ملتا لیکن دنیا کی سبھی تاریخوں میں انہیں شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ ہومر کے زمانے میں فوسیقی جہاز جو سامان بحیرہ روم کے پورے علاقے میں پہنچاتے تھے اس میں پودے بھی تھے اور پیداوار بھی ۔ گلاب، کھجور، انجیر، انار، مر (لوبان کی مانند ایک خوشبو دار گوند) )آلوچه اور بادام ، زیتون کے درخت مشرق قریب کی خاص پیداوار تھے۔ یہیں سے یہ یونان، اٹلی، افریقہ اور ہسپانیہ پرتگال پہنچتے ۔ ساتھ ہی ان پودوں سے پیدا ہونے والی چیزیں جگہ جگہ بھیجی جانے لگیں یعنی زمینوں کا پھل اور تیل یورپی زبانوں میں اب تک ان سامی ناموں کے آثار موجود ہیں۔ یہی فونیقی جہاز تھے جو یونان سے لارل اولیا نڈز (پودے) سوسن عشق پیچان، پودینہ، نرگس ، مشرقی بحیرہ روم میں پہنچاتے اور جن میں سے بعض کے نام یونانی اب تک سامی زبانوں میں محفوظ ہیں۔ گرم مسالوں کی تجارت جو بحیرہ روم میں بہت نفع بخش تھی تقریباً پوری کی پوری فونیقیوں کے ہاتھ میں تھی۔ وہ مصالحے حاصل کرنے کے راستے سب سے مخفی رکھتے تھے اور دوسروں کو گونا گوں خطروں کے متعلق مبالغہ آمیز افواہیں پھیلاتے رہتے تھے جو گرم مسالوں کی زمینوں اور ان کی درآمد میں پیش آتے تھے۔ آٹھویں صدی قبل مسیح تک فونیقیوں کی تجارت اتنی ترقی کر چکی تھی ، ایشیا، یورپ اور افریقہ تک ان کی نو آبادیاں قائم ہو چکی تھیں ۔ یہ سب تجارت بارٹر سٹم کے تحت ہوتی تھی۔ جب یہ تاجر افریقہ کے مغربی ساحل پر پہنچے تو سامان تجارت ساحل پر اتار کر عوام کی اطلاع کیلئے الاؤ روشن کرتے اور خود جہازوں پر واپس چلے جاتے ۔ مقامی باشندے دھواں اٹھتا دیکھ کر سونا لے کر ساحل پر پائی جاتے اور سامان لے کر اور سونا رکھ کر واپس چلے جاتے ۔ غرض یہ لین دین چپ چاپ ہم تا، کوئی بھی فریق دوسرے فریق کو دھوکا نہیں دیتا تھا۔ فونیقیوں کے تجارتی بحری بیڑے کو بحیرہ روم پر اتنا اقتدار حاصل تھا کہ رومیوں سے صاف صاف کہہ دیا گیا کہ وہ بغیر اجازت کے اس سمندر میں ہاتھ بھی نہیں دھو سکتے۔ فوقی جس طرح تجارت کے سلسلے میں مشرق و مغرب کے درمیان واسطہ رہے، اسی طرح دینیات اور روحانیات میں بھی واسطہ بنے رہے۔ ان کے جہاز اور قافلے محض سامان ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ نہ پہنچاتے تھے بلکہ وہ غیر محسوس چیزیں بھی ساتھ لئے پھرتے تھے جو انسانی ارتقاء کیلئے زیادہ ضروری تھیں۔ انہیں میں گونا گوں تہذیبی اثرات بھی شامل تھے جو فونیقی تاجر اور آباد کار دوسروں پر ڈالتے تھے ۔ یونانیوں نے بحر پیمائی اور آبادکاری میں ان کی شاگردی اختیار کی بلکہ ادبیات، مذہب اور تہذیبی فنون کے دائروں میں بھی بہت کچھ مستعار لیا۔ فونیقیوں کی سرگرمیوں نے نہ صرف بحیرہ روم کے ارد گرد گونا گوں ثقافتی تحریکات کا مرکز بنا دیا جو حض لبنان ہی سے نہیں بلکہ نیل و فرات اور سندھ کی وادیوں سے بھی اٹھی تھیں۔
ابجد
انسانیت پر جو فونیقیوں نے احسان کئے ان کی اہمیت کے لحاظ سے اعلیٰ ترین ابجد تھی۔ ابجد سب سے پہلے انہی نے استعمال کی جسے تحریر ونگارش کا ایک ترقی یافتہ نظام سمجھنا چاہئے ۔ پھر اسے جگہ جگہ پھیلایا۔ فونیقیوں نے ابجد کے بنیادی عناصر مصریوں کے ہیرو غلافی ( تصویری) نظام سے لئے اور یہ عناصر جزیرہ نمائے سینیا سے ان کے پاس پہنچے۔ ہیرو غلافی رسم الخط کی ابتدا تصویروں سے ہوئی تھی لیکن آہستہ آہستہ چالیس صوتی نشان قائم کر لئے تھے جنہیں اس رسم الخط کے حروف صحیح سمجھنا چاہئے۔ اہل مصر قدامت پسند تھے۔ انہوں نے فونیقیوں کے رسم الخط سے فائدہ نہ اٹھایا۔ سولہویں صدی کے اوائل میں کنعانی کان کن قیدی جو جزیرہ نمائے سینا میں تھے۔ انہوں نے مصری طرز تحریر کو یکسر نظر انداز کر کے وہ نشان استعمال کرنے شروع کئے جنہیں فونیقیوں نے اتحاد کر کے حروف درست کی حیثیت دی تھی۔ ان کے لئے سامی نام تجویز کئے مثلا ایک نشان بیل کے سر کا تھا۔ انہوں نے یہ حقیقت نظر انداز کر دی کہ مصری زبان میں نیل کے سر کو کیا کہتے ہیں اور سامی میں اس کا نام الف رکھ دیا۔ پھر صوتیات کے اصول کی بنا پر ہر حرف کی ابتدائی آواز کو اس نشان کا نام دیدیا جو اس کی نمائندگی کرتا تھا۔ یہی آخری نشان تلفظ میں استعمال ہوا۔ مثلا گھر کو بیت کہتے ہیں۔ اس نشان سے ملتی جلتی ب مقرر کر لی گئی ۔ ہاتھ کو یہ کہتے ہیں اس کیلئے نے مقرر ہو گئی۔ پانی کو ما’ کہتے ہیں اس کیلئے ہم مقرر کر لی گئی۔ سر کے لئے کنعانی لفظ ریش، اس کے لئے اڑ مقرر کر لی گئی۔ اس طرح 22 نشانوں کا ایک سلسلہ قائم کر لیا۔ یہ حروف دائیں سے بائیں کو لکھے جاتے ۔ اس کی ابتدا کتوں سے ہوئی جو پتھر پر کندہ کئے گئے۔ یہ کارنامہ بابلی فونیقیوں نے سرانجام دیا۔ جرمن پروفیسر بوہلر جو برصغیر کی زبانوں کے ماہر تھے، انہوں نے ہی کٹھوائی کے قریب سے ملنے والا کتبہ پڑھا تھا جس کا ذکر تفصیل سے کتاب ہذا میں موجود ہے۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ یوناگری خط کی اصل بھی یونانی خط میں ہے۔ یونانیوں نے اپنا رسم الخط فیقوں سے حاصل کیا جو دنیا میں واقعا رسم الخط کے بانی شمار ہوتے ہیں۔ یونانی بھی پہلے دائیں سے بائیں طرف لکھتے تھے ، بعد میں تقریباً 500 ق م میں انہوں نے اپنے خط کی اصلاح کئی اور بائیں سے دائیں طرف لکھنا شروع کیا۔ انہی فیقی تاجروں کی وساطت سے یہ رسم الخط برصغیر میں پہنچا۔
قدیم ترین تحریروں کے نمونے جو مہاراجہ اشوک کے ستونوں پر کندہ ہیں، وہ دو رسم الخطوں میں ملے ہیں ۔ شمال مغربی پنجاب اور مشرقی افغانستان میں پتھروں کی تحریر میں خط خروشتی میں لکھی ہوئی ہیں۔ یہ خط دائیں سے بائیں طرف لکھا جاتا ہے۔ دوسرا خط بر ہما کے نام سے مشہور تھا۔ اشوکا کے کتبے اسی رسم الخط میں لکھے گئے ہیں جس کو برہمنوں نے اصلاح کر کے اور ترقی دے کر موجودہ دیوناگری خط میں تبدیل کیا ہے۔ اگر فیقی خط کو اصل مان کر مشرقی اور مغربی خطوط کی ارتقائی صورتوں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ خط بر ہما بھی ابتدائی یونانی سے مشابہ ہے۔ درج ذیل نقشے اس کی تفصیل مہیا کرتے ہیں۔ ( جو اس باب کے آخر پر ملاحظہ کریں) یہی حال عربی رسم الخط کا ہے۔ یہ بھی فیقی اور آرامی سے ہوتا ہوا فاری میں نمودار اور اہل فارس نے اپنی ضرورت کے تحت اس میں نئے الفاظ ڈال دیئے مثلاگ ۔ ثر۔ چ وغیرہ۔ یہ عربی میں نہیں۔ بالکل اسی طرح جب مسلمانوں کا برصغیر کی زبانوں سے واسطہ پڑا تو اسی عربی رسم الخط میں مقامی ضرورتوں کے تحت نئے الفاظ شامل کر دیئے جو عربی اور فارسی میں نہ تھے ۔ مثالاٹ ۔ یہ الفاظ عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں نہیں ہیں ۔ اس طرح اردو زبان آسانی سے عربی رسم الخط میں لکھی جانے لگی۔ غیر مسلم اپنے رسم الخط کو استعمال کرتے اور مسلمان اپنے کو ۔ یہی فرق آگے چل کر پاکستان کی صورت میں ہندوؤں سے علیحدہ ہونے کا ایک سبب بنا کیونکہ ہندو اور مسلم ثقافت کا آپس میں کوئی جوڑ ہی نہیں ۔ بھارت میں اب سارا کام دیوناگری رسم الخط ثقافت اور مسا میں ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں اردو میں … اور اس کے ساتھ ہی تمام علاقائی زبانیں مثلا پشتو بلوچی، سندھی، پنجابی، کشمیری سب اردو رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں اور ضرورت کے تحت کچھ تبدیلیاں ضرور کی ہیں ۔ یہ بات بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ چاہے دیوناگری رسم الخط ہو چاہے عربی رسم الخط سب کا منبع فونیقی رسم الخط ہی ہے۔ یہ بات نقشوں سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بھی یادر ہے کہ عربی رسم الخفظ مسلمانوں کے ذریعے یہاں پہنچا وگرنہ ہزار سال پہلے یہاں اسے کوئی جانا نہ تھا۔ اب جیسے دیوناگرمی کا حال پاکستان میں ہے، اسے اب پاکستان میں شاید ہی کوئی جانتا ہو۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے