صحافت میانیوالی

میانوالی: صحافتی زندگی

سید نصیر شاہ

 

میانوالی کی صحافتی زندگی

سید نصیر شاہ

میانوالی میں سب سے پہلے ۳۷-۱۹۳۶ء میں سردار پریتم سنگھ نے ایک ہفت روزہ "پربت” کے نام سے نکالا تھا مگر یہ بمشکل چار ماہ پورے کر سکا۔ میں نے جب شعور و دانش کی وادیوں میں قدم رکھا تو میانوالی سے ایک اخبار "شان” نکلا کرتا تھا۔ اس کے ایڈیٹر سید بسمل ہاشمی تھے۔ یہ اخبار میرے ذوق علم و ادب کی توہین کے مترادف تھا۔ یہ اس ادارے کا ترجمان تھا۔ جسے اس زمانے میں ڈسٹرکٹ بورڈ کہا جاتا تھا۔ بلاشبہ ہاشمی صاحب میں لکھنے کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں۔ لیکن ان کی ” انا” پر پہرے تھے ۔ اس لئے "شان” میانوالی کی عظیم الشان روایت نہ بن سکا۔ ہاشمی صاحب مرحوم ہو گئے۔ ان کے انتقال کے بعد کچھ عرصہ تک یہ پرچہ محترم حمید اللہ خان ضیاء صاحب کی ادارت میں چلتا رہا۔

ایک اور رسالہ "المجاہد ” ۵۴ – ۱۹۵۳ء میں جاری ہوا۔ اس کے ایڈیٹر عبد الکریم قریشی تھے۔ ان کے معاون ڈاکٹر الیاس اور واصل ہاشمی تھے۔ میں بھی اس پرچہ میں کچھ ” تلخ حقائق” کا زہر گھول دیا کرتا تھا۔ یہ ہفت روزہ نیم ادبی ، نیم سیاسی تھا۔
المجاہد ” اپنا عرصہ حیات مکمل کر چکا۔ وہ سیفٹی ایکٹ کے سیفٹی ریزر سے شہید کر دیا گیا۔ لکھاری بیچارے نوشتہ دیوار بن کر رہ گئے۔ "المجاہد ” بمشکل تیرہ ماہ پورے کر سکا تھا۔ اس کے بعد مشہور استاد الحاج محمد یوسف اور محمد ایوب چغتائی نے سرہنگ” کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا جس کے تین چار پرچے ہی دیکھنے میں آئے۔
اس کے بعد میانوالی کے ادبی افق پر سوز و ساز” کے نام سے ایک ماہنامہ طلوع ہوا۔ اقبال کا یہ شعر اس کی پیشانی کا جھومر ہوا کرتا تھا۔

  شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز 

اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی

میرے ایک عزیز ترین دوست غلام جیلانی صاحب اس کے پرنٹر پبلشر تھے۔ میں اس کا ایڈیٹر تھا۔ ہم تہی دامن تھے مگر جنوں کب سامان و متاع کی تلاش میں رہا کرتا ہے۔ اپنی کم مائیگی کا یہ عالم تھا کہ اس کی کتابت خود غلام جیلانی یا پھر کبھی کبھی ان کے بر اور بزرگ ماسٹر غلام محی الدین کیا کرتے تھے۔
میں خود کڑوے گھونٹ” کے عنوان سے کونین فروش” کے قلمی نام سے لکھا کرتا تھا۔ تبصرہ کے لئے کچھ پرچے دیگر جرائد کو ارسال کئے گئے تھے۔ اگر ان جرائد کے تبصروں کے اقتباسات نقل کئے جائیں۔ تو مضمون بھی طویل ہو جائے گا اور کچھ لوگ اسے خود ستائی پر بھی محمول کریں گے، صرف ماہر القادری مرحوم کے ایک دو جملے نقل کئے دیتا ہوں۔ سوز و ساز” ایک علمی و ادبی پرچہ ہے۔ جس کے اداریے پڑھ کر مجھے بے اختیار مولانا ابوالکلام آزاد کا ابلاغ یاد آگیا۔ کاش اس ماہنامہ پر میانوالی نہ لکھا ہوتا۔ کیونکہ لوگ لاہور اور کسی حد تک کراچی کو ادبی ٹکسالیں سمجھ بیٹھے ہیں۔
نامساعد حالات کے باعث یہ پرچہ بند ہو گیا۔ جناب مولوی مهر حسین قریشی صاحب میانوالی کی معروف شخصیت ہوئے ہیں۔ حسن اتفاق سے ان کے فرزند عزیز جناب نذر حسین شاہ صاحب ہائی سکول واں بھچراں کے ہیڈ ماسٹر متعین ہوئے۔ ماضی مرحوم کی بکھری ہوئی جاں نو از یادیں ان کے ذہن پر عکس نکن ہو ئیں اور انہوں نے "شعاع مہر” کے نام سے ایک ہفت روزه جاری کر ڈالا۔ ابتداء میں اس پر ایڈیٹر کی حیثیت سے سجاد ہاشمی صاحب کا نام لکھا جاتا تھا۔ بعد میں یہ ہفت روزہ بھی میری ادارت میں شائع ہونے لگا عرصہ دراز تک اس ہفت روزہ نے میانوالی کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دیئے مگر نامساعد حالات کے باعث یہ بھی اللہ کو پیارا ہو گیا۔ ماضی قریب میں میانوالی کی ایک شخصیت "خان زمان خان” نے "ازان حق” کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کیا۔ مدیر خود، خان زمان خان تھے۔ انہوں نے انتہائی جاں فشانی سے اذان حق” کا موذن بننے کی کوشش کی۔ یہ اعتراف اپنی اللہ ملک نے کھل کر لکھنے کا آغاز کیا۔

راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں

اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

اور اس میں تردید و انکار کی گنجائش نہیں کہ آج کل وہ بہت کھلے ہوئے جگہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ” اذان حق” نے بہت سے لوگوں کو لکھنا سکھا دیا۔ کلیم ہیں۔
سید ستار اخگر جو آج کل ستار سید ہیں اور ریڈیو پاکستان (لاہور) میں پروگرام پروڈیوسر ہیں۔ گلزار بخاری (جو ان دنوں لیکچرار ہیں) اسی ”اذان حق” کے توسط سے متعارف ہوئے تھے۔
اور آخر ازان حق” بھی خان زمان خان” کی "مصلحت اندیشیوں” بلکہ ” مصلحت کوشیوں” کی نذر ہو گیا۔ گل ہاشمی صاحب گورنمنٹ ہائی سکول میانوالی میں تھے تو ان کی مساعی سے "گل صحرا” کا ایک جریدہ ” اسکول میگزین کی حیثیت سے منظر عام پر آیا مگر پھر مرحوم ہو گیا۔ کالج کا جریدہ "سمیل” با قاعدہ طلوع ہو رہا ہے۔ ان دنوں اس کے نگران و مرتب ممتاز سکالر اور ادیب پروفیسر محمد فیروز شاہ ہیں۔ قبل ازیں گورنمنٹ ہائی سکول میانوالی سے ۱۹۷۷۷۸ء میں ایک مجلہ ”شاہین وطن” کے نام سے بھی چھپا تھا۔ اسے بھی محمد فیروز شاہ نے ہی مرتب کیا تھا۔ میانوالی کی صحافتی زندگی میں گہما گہمی آئی تو کئی اخبارات و جرائد یہاں سے جاری ہوئے۔ اور حسب توفیق زندہ رہ کر ریکارڈ میں اپنا نام درج کرا گئے۔ ان میں داؤد انور نیازی کی ادارت میں میانوالی گزٹ ” محمد اشفاق چغتائی کا ” پیام سروش” محمد طارق ندیم کا افہام ” اصغر حسین اصغر اور ظفر اقبال برق کی ادارت میں ” شہادتیں شرر صہبائی کی ادارت میں خبر نامہ ” میانوالی” افضل عاجز کی ادارت میں ماری” وغیرہ شامل ہیں۔ ہفت روزہ "صدائے میانوالی” شیر بہادر چغتائی اور محمد یوسف چغتائی کی ادارت میں نکلتا ہے۔ البتہ رانا امجد اقبال اور رانا ساجد اقبال کی ادارت میں ”نوائے شرر ” باقاعدگی کے ساتھ منظر عام پر آ رہا ہے۔ یہ اخبار ہفت روزہ سے سہ روزہ اور ان دنوں روزنامہ کے سرنامہ کے ساتھ آ رہا ہے۔ آج کل روف بخاری کا "ضرب قلم ” ایم ڈی اعوان کا ”مہاڑ اور حیات اللہ خان کا ہفت
روزه ایراث ” بھی شائع ہو رہے ہیں۔
کلیم اللہ ملک اور نعمت اللہ عابد کا ہفت روزہ "آج کا عنوان” بھی چھپ رہا ہے۔

 

نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com