چینیوٹ کی سیاست

چنیوٹ:سیاسی میدان

شیخ برادری

چینوٹ کی شیخ برادری ابتداء ہی سے نہ صرف تجارت بلکہ سیاست کے ساتھ بھی وابستہ رہی اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے ہر موقع پر حکومت کی بھر پور حمایت کی۔ چینوٹ کے مگوں خاندان کے جد امجد میاں سلطان محمود مگوں کا بیٹا نواب عبد الرحیم مگوں جھنگ میونسپل کمیٹی کے تاحیات صدر رہے۔ 1887ء میں چنیوٹ میونسپل کمیٹی کا الیکشن ہوا تو اس میں میاں قطب دین مگوں نائب صدر منتخب ہوئے۔ میاں اللہ بخش مگوں 1935ء تا 1955 ء تک بلدیہ کے صدر کے عہدہ پر فائز رہے۔ قیام پاکستان کے دوران بھی چینوٹ کی شیخ برادری کی ہمدردیاں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ تھیں۔ جب قائد اعظم کلکتہ کے دورے پر گئے تو انہیں میاں محمد یعقوب پستہ گر واڑہ نے شیخ برادری کی طرف سے ایک بلینک چیک مسلم لیگ فنڈ کیلئے دیا۔

کراچی کے سیٹھ محمد عثمان جو کہ چنیوٹ سے کراچی منتقل ہوئے تھے۔ انے بھی سیاسی میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سیٹھ محمد عثمان 1964ء میں کراچی مسلم لیگ کے نائب صدر کے عہدہ پر رہے۔ 1946ء میں گول میز کانفرنس لندن میں شرکت کیلئے قائد اعظم اور لیاقت علی خان جا رہے تھے تو انہوں نے ایک روز کراچی میں قیام کیا تو سیٹھ محمد عثمان نے ان کے اعزاز میں عصرانہ دیا۔ اس عصرانے میں مسلم لیگی اکابرین و وزراء کے علاوہ چنیوٹ کی شیخ برادری کے افراد نے بھی شرکت کی۔ جن میں میاں محمد اسلم ( صدر مفاد عامہ چنیوٹ برادری) بھی موجود تھے۔ بیرسٹر محمد امین مگوں قائد اعظم کے قابل اعتماد ساتھی ہونے کے ساتھ پنجاب مسلم لیگ کمیٹی کے اہم رکن بھی تھے۔ وہ 1919ء میں جھنگ کی میونسپل کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے ۔ اس کے بعد ضلع کونسل جھنگ کے وائس چیر مین رہے اور 1937ء میں لاہور منتقل ہو گئے ۔ اسی سال الیکشن میں حصہ لے کر پنجاب اسمبلی کے ممبر نتخب ہوئے ۔

قائد اعظم نے انہیں پنجاب مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کا رکن مقرر کر دیا۔ 1945ء میں مسلم لیگ اور کانگریس میں شملہ کا نفرنس ہوئی تو قائد اعظم نے انہیں کانفرنس میں شرکت کے لئے نامزد کیا۔ انگریز حکومت نے 1946ء میں انتخابات کروائے تو انہوں نے حصہ لے کر نمایاں کامیابی حاصل کی۔ قائد اعظم نے انہیں پنجاب مسلم لیگ ڈیفنس کمیٹی کا چیر مین بھی نامزد کیا۔ انہوں نے مسلسل تین بار پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں ملتان کے زین العابدین گیلانی ، مظہر نواز خان اور فیصل آباد کے میر عبدالقیوم کو شکست دی ۔ قیام پاکستان سے قبل ہی ان کا مسلم لیگ ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس میں ہارٹ فیل ہو جانے کی وجہ
سے انتقال ہو گیا۔

جب ان کے انتقال کی خبر آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہوئی تو قائد اعظم نے اپنی طرف سے آئی آئی چندر گر کو نماز جنازہ میں شرکت کیلئے لاہور روانہ کیا، جبکہ خود بیماری کی وجہ سے نہ پہنچ سکے ۔ میاں محمد رفیق المعروف مجسٹریٹ ، کلکتہ کے آزیری مجسٹریٹ مقرر ہوئے اور بعد میں انہوں نے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ پھر کلکتہ کے میئر منتخب ہوئے۔ تحریک پاکستان کے دوران شیخ برادری کے زیادہ تر افراد امرتسر بمبئی، مدراس ، کلکتہ، آگرہ ، اور کانپور میں آباد تھے تقسیم پاکستان کے بعد یہ لوگ بے پناہ مصائب اور خون کے دریا عبور کر کے چنیوٹ پہنچے۔ دہلی سے دوران ہجرت چنیوٹ شیخ برادری کے تین افراد میاں مولا بخش بھراڑہ ، میاں محمد ابراہیم اور میاں محمد اسماعیل ہندؤں اور سکھوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے ۔

قیام پاکستان سے قبل میاں محمد سعید ودھاون نے کانپور انڈیا میں ایک مقبول ہستی مولانا حسرت موہانی کو شکست دے کر نمایاں کامیابی حاصل کی۔ 1938ء میں جب مسلم لیگ کی تنظیم نو ہوئی تو شیخ محمد امین بھراڑہ کو چنیوٹ مسلم لیگ کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ جب 23 مارچ 1940 ء کولاہور میں مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس ہوا تو چنیوٹ سے مسلم لیگ کی طرف سے چوہدری محمد اسماعیل، شیخ محمد امین بھراڑہ سیکرٹری اور شیر محمد خان سیال (محلہ انصاریاں والے) نے بھی شرکت کی۔ 1947 ء میں تحریک پاکستان عروج پر تھی۔ مسلم لیگ کی کامیابی کے باوجود انگریز گورنر نے ملک خضر حیات ٹوانہ کو پنجاب میں حکومت بنانے کی دعوت دی تو پنجاب مسلم لیگ نے خضر وزارت کے خلاف سول نافرمانی تحریک شروع کر دی۔ چنیوٹ میں اس کا بڑاز دور رہا۔ روزانہ جلوس نکلتے اور گرفتاریاں ہوتیں ۔ چنیوٹ شیخ برادری کی طرف سے شیخ صادق عباس مگوں نے گرفتاری دی اور کارکنوں کے احتجاج کی بدولت بالآخر ملک خضر حیات ٹوانہ وزارت سے مستعفی ہو گیا۔

حسین شہید سہروردی دور میں رفیق احمد ولد دوست محمد (ڈھنگی پاروالے ) بھی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ صدر جنرل محمد ایوب خان دور میں میاں محمد اسلم نے جناح کالونی لاکپور (فیصل آباد ) کے حلقہ میں بی ڈی کا الیکشن لڑ کر نمایاں کامیابی حاصل کی اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی وہ بحیثیت کارکن شہری دفاع خدمات سرانجام دیتے رہے۔ چنیوٹ سے حاجی محمد یوسف ودھاون نے بھی بی ڈی ایکشن

امرتسر بمبئی، مدراس ، کلکتہ، آگرہ ، اور کانپور میں آباد تھے تقسیم پاکستان کے بعد یہ لوگ بے پناہ مصائب اور خون کے دریا عبور کر کے چنیوٹ پہنچے۔ دہلی سے دوران ہجرت چنیوٹ شیخ برادری کے تین افراد میاں مولا بخش بھراڑہ ، میاں محمد ابراہیم اور میاں محمد اسماعیل ہندؤں اور سکھوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے ۔ قیام پاکستان سے قبل میاں محمد سعید ودھاون نے کانپور انڈیا میں ایک مقبول ہستی مولانا حسرت موہانی کو شکست دے کر نمایاں کامیابی حاصل کی۔ 1938ء میں جب مسلم لیگ کی تنظیم نو ہوئی تو شیخ محمد امین بھراڑہ کو چنیوٹ مسلم لیگ کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ جب 23 مارچ 1940 ء کولاہور میں مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس ہوا تو چنیوٹ سے مسلم لیگ کی طرف سے چوہدری محمد اسماعیل، شیخ محمد امین بھراڑہ سیکرٹری اور شیر محمد خان سیال (محلہ انصاریاں والے) نے بھی شرکت کی۔

1947 ء میں تحریک پاکستان عروج پر تھی۔ مسلم لیگ کی کامیابی کے باوجود انگریز گورنر نے ملک خضر حیات ٹوانہ کو پنجاب میں حکومت بنانے کی دعوت دی تو پنجاب مسلم لیگ نے خضر وزارت کے خلاف سول نافرمانی تحریک شروع کر دی۔ چنیوٹ میں اس کا بڑاز دور رہا۔ روزانہ جلوس نکلتے اور گرفتاریاں ہوتیں ۔ چنیوٹ شیخ برادری کی طرف سے شیخ صادق عباس مگوں نے گرفتاری دی اور کارکنوں کے احتجاج کی بدولت بالآخر ملک خضر حیات ٹوانہ وزارت سے مستعفی ہو گیا۔ حسین شہید سہروردی دور میں رفیق احمد ولد دوست محمد (ڈھنگی پاروالے ) بھی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ صدر جنرل محمد ایوب خان دور میں میاں محمد اسلم نے جناح کالونی لاکپور (فیصل آباد ) کے حلقہ میں بی ڈی کا الیکشن لڑ کر نمایاں کامیابی حاصل کی اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی وہ بحیثیت کارکن شہری دفاع خدمات سرانجام دیتے رہے۔ چنیوٹ سے حاجی محمد یوسف ودھاون نے بھی بی ڈی ایکشن میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی ، جو کہ سید الطاف حسین گروپ کے ممبر تھے اور اسی گروپ سے یونین کونسل چنیوٹ کے چیر مین منتخب ہوئے ۔ شیخ احسان الہی نے 1977ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی پنجاب کے الیکشن میں حصہ لیا مگر شکست کھا گئے ۔ ڈی آئی جی سندھ پولیس کراچی شوکت حیات کے بھائی شیخ خورشید اسلم نے بھی بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا اور چیئر مین بلدیہ چنیوٹ کے عہدہ پر فائز رہے اور بہت سارے فلاحی کام کروائے۔

قمر حسین بھراڑہ المعروف خادم شہر نے بلدیاتی سیاست میں مسلسل چار مرتبہ کونسلر منتخب ہو کر کافی نام کمایا اور اپنی مقبولیت کا سکہ منوایا۔ شیخ شفیق احمد وہرہ (فرنیچر والے) نے بھی چنیوٹ کی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دومرتبہ کامیابی حاصل کی۔ شہزادہ محمد اکبر اور انجمن تاجران پنجاب کے صدر الحاج شیخ محمد نواز وہرہ کے والد محترم الحاج شیخ محمد یوسف سالار نے بھی بلدیاتی الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ الحاج شیخ محمد نواز وہرہ نے بھی پنجاب کی تجارتی سیاست میں نام پیدا کیا ہے۔ اور ان کے بھائی شیخ ذوالفقار احمد وہرہ کراچی میں چنیوٹ شیخ برادری کے جنرل سیکرٹری ہیں ۔ شیخ مولا بخش چنیوٹی شہر کی معروف سماجی شخصیت اور تاجران کے صدر تھے۔ ان کی چنیوٹ کے لئے سیاسی سماجی خدمات مسلمہ ہیں۔ تحریک پاکستان میں نمایاں ہم لیگ ۔ رگرم کارکن تھے۔

ایوب دور کے بنیادی جمہوریت میں بلدیہ کے مبر منتخب ہوئے ۔ 1953 کی تحریک ختم نبوت میں بھر پور حصہ لیا جس میں ملک نذرمحمد ، ملک اللہ دتہ اور چوہدری شیر محمد وسیر و دیگر کے ہمراہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے معروف صحافی کالم نگار و تجزیہ نگار حکیم شیخ اشفاق احمد چنیوٹی 1979ء میں کو نسلر منتخب ہوئے اور مسلسل 8 سال کونسلر بلدیہ، صدرانجمن تاجران ، پولیس قومی رضا کاران کے کمانڈ راور شہرکی تمام سماجی تنظیموں کے بطور ایگزیکٹومبر سماجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایس ایم منیر اور شہزاد و عالم منوں صدر جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوری کے نمبر رہے اور ایس ایم منیر وفاق میں بطور مشیر بھی فائز رہے ۔ شیخ اعجاز احمد نگوں المعروف استاد اعجاز وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں سینیٹر رہے۔ میاں اعجاز احمد شفیع ودھاون چنیوٹی نواز شریف دور میں کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے سابق وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر کو حیران کن شکست دے کر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔

شیخ برادری کے معروف سیاستدان قیصر احمد شیخ نے سب سے پہلے کراچی چیمبر کی صدارت کا الیکشن لڑ کر نمایاں کامیابی حاصل کی اور برادری سے بالا تر ہو کر چیمبر کے ہر ممبر کے مسائل احسن طریقے سے حل کروائے ۔ ان کی انہی بے لوث خدمات کے پیش نظر برادری کے احباب نے انہیں اپنے آبائی شہر میں الیکشن کے لئے نامزد کیا۔ چنیوٹ میں 1993ء میں انہوں نے قومی اسمبلی کا پہلا الیکشن لڑا مگر پاکستان پیپلز پارٹی گروپ کے امید وار سرداز زاده ظفر عباس سید ( آف رجوعه سادات ) کے مقابلہ میں شکست کھا گئے ۔ دوسری مرتبہ 1997ء کے الیکشن میں انہوں نے بحیثیت آزاد اُمیدوار حصہ لیا اور بھاری اکثریت کے ساتھ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔

2001ء میں انہوں نے ضلعی ناظم جنگ کے الیکشن میں حصہ لیا مگر صاحبزادہ حمید سلطان کے مقابلہ میں ہار گئے۔ اکتوبر 2002 ء کے انتخابات میں انہوں نے تیسری مرتبہ اپنی پارٹی تحریک استقلال کے نکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اگر مسلم لیگ قائد اعظم گروپ کے امیدوار سردارزادہ محمد طاہر شاہ ( آف رجوعہ سادات ) کے مقابلہ میں شکست کھا گئے۔ اکتوبر 2002 ء کے انتخابات میں جے کے گروپ کے میاں زاہد انوار نے بھی فیصل آباد سے قومیاسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا مگر شکست کھا بیٹھے۔

فیڈریشن آف چیمبر کے وائس پریذیڈنٹ محمد جمیل محبوب مگوں بھی میاں محمد نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں سیاست کے میدان میں اترے مگر نواز شریف کی معزولی کے بعد جلد ہی سیاسی منظر سے غائب ہو گئے ۔ سابق خاتون وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے دور میں فیڈ ریشن آف چیمبر کے سابق صدر میاں حبیب اللہ ڈی ایم مل والے کو پاکستان ایکسپورٹ پروموشن بیورو کا چئیر مین بنا کر اور وفاقی وزیر کا درجہ دے کر تاجر برادری کی خوب ہمدردیاں حاصل کیں۔

سادات رجوعه ۵۲:

سادات رجوعہ شروع ہی سے سیاست کے ساتھ وابستہ رہے۔ سردار حسین شاہ 1937ء میں پہلی مرتبہ الیکشن لڑ کر نواب مظفر آف کیمبل پور کے مقابلہ میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے ایم ایل سی منتخب ہوئے ۔ آپ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر بھی رہے۔ شملہ کا نفرنس کے ناکام ہو جانے کے فورا بعد انگلستان میں لیبر وزارت کی تشکیل ہوئی چنانچہ نئی حکومت نے 1946ء میں ہندوستان کی تمام صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے انتخابات کروائے اور ساتھ ہی اعلان کر دیا گیا کہ انتخابات کے فورا بعد ہندوستان میں ایک دستور ساز اسمبلی قائم کی جائے گی۔ انتخابات نے قائد اعظم کے اس دعوئی کو کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ پوری طرح ثابت کر دیا۔ مرکزی اسمبلی کی تمام نشستیں مسلم لیگ کے قبضہ میں آگئیں ۔ جس میں سردار حسین شاہ اور سردار غلام عباس نمائندے چنے گئے ۔ انتخابات کے فوراً بعد 19 اپریل 1946ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے مسلم لیگی ارکان کا دہلی میں اجلاس طلب کیا۔ جس میں چنیوٹ کے نمائندگان سردار حسین شاہ اور سردار غلام عباس نے بھی شرکت کی۔ یہ ہندوستان میں اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس تھا جہاں ہر نمائندے نے حصول پاکستان کیلئے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور ہر مندوب نے حلف اٹھایا کہ وہ آزادی کی خاطر اپنا تن ، من ، دھن قربان کر
دے گا۔

سردار غلام محمد شاہ 1951ء اور 1958ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے مگر دونوں مرتبہ مولانا محمد ذاکر کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر 1965ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑے جس میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے ایم این اے منتخب ہوئے۔ سردارمحمد علی شاہ 1971ء میں بھوآنہ کے حلقہ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے جس میں شکست کھا گئے۔ دوبارہ 1985ء میں مسلم لیگ کی طرف سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے اور مہر دوست محمد ولد مہر اللہ یار لالی کے مقابلہ میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے ایم این اے منتخب ہوئے۔ 1985ء میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیر مین رہے۔ 1987ء میں وفاقی وزیر ریلوے کے عہدہ پر فائز رہے۔ اسی دوران گرلز انٹر کالج چنیوٹ کو ڈگری کالج کا درجہ ولانا۔ اور چنیوٹ ریلوے اسٹیشن پر سپر ایکسپریس کی پانچ منٹ کیلئے بریک لگوانا آپ کے اہم کارہائے نمایاں ہیں ۔ آپ 1965 ءتا 1970ء تک ضلع کونسل جھنگ کے چیر مین بھی رہے۔ 1988ء میں انہوں نے سیدہ عابدہ حسین کی خالی کردہ نشست پر ضمنی الیکشن لڑا جس میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے ایم این اے منتخب ہو گئے۔

سردارزادہ ظفر عباس سید 1965ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے مگر شکست کھا گئے ۔ 1971ء میں دوبارہ ہار گئے ۔ آپ 1977ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑے جس میں پیپلز پارٹی کے امیدوار مہر دوست محمد ولد مہر اللہ یار لالی کے مقابلہ میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ 1985ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر دوبارہ ایم پی اے منتخب ہو گئے اور مشیر وزیر اعلی کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ 1988ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے مگر سید امیر حسین شاہ کے مقابلہ میں شکست کھا گئے ۔ 1993ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ایم این اے منتخب ہوئے ۔ اکتوبر 2002ء میں
صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے مگر اپنے ہی بھانجے سید حسن مرتضی کے مقابلہ میں ہار گئے۔

سید حسن مرتضی نے 1997ء میں پہلی مرتبہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر حاجی مہر محمد حیات جپہ کے مقابلہ میں شکست کھا گئے ۔ دوبارہ اکتوبر 2002ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر پہلی مرتبہ ایم پی اے منتخب ہوئے۔ سردار ناصر علی شاہ 1971ء میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے مگر سردار الطاف حسین شاہ کے مقابلہ میں شکست کھا گئے ۔

سردار زادہ محمد طاہر شاہ نے 1988 ء میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا۔ آپ نے 1988-1990ء اور 1993ء میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر حاجی مہر محمد حیات جپہ کے مقابلہ میں تینوں مرتبہ نمایاں کامیابی حاصل کی ۔ 1993ء میں صوبائی وزیر خوراک اور 95-1994ء میں صوبائی وزیر شکاریات کے عہدہ پر فائز رہے۔ آپ اکتوبر 2002ء میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے جس میں مولانا محمد رحمت اللہ اور قیصر احمد شیخ کے مقابلہ میں ایم این اے منتخب ہوئے۔ 2004 ء میں چیر مین انفارمیشن ٹیکنالوجی آف پاکستان کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ سردار زادہ ذوالفقار علی شاہ نے 2001ء میں پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور ملک غلام عباس نسو آنبہ و مولانا محمد الیاس چنیوٹی کے مقابلہ میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے تحصیل ناظم منتخب ہوئے۔

قاضی خاندان:

چنیوٹ کا یہ خاندان بھی عرصہ دراز سے سیاست کے ساتھ وابستہ ہے۔ قاضی مولا بخش چنیوٹ بلدیہ کے پہلے چیر مین رہے اور 1909ء تا 1916 ء تک آنریری مجسٹریٹ کے عہدہ پر فائز رہے۔ 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک (موجودہ یادگار پاکستان) میں قرار داولا ہور منظور ہوئی۔ جس کے سلسلہ میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کیلئے اسلامیہ کالج لاہور میں سرمحمد عبد القادر ، نواب ثار علی خان بہادر، میاں احمد سعید بٹالوی سر سکندر حیات کے چچا نواب مظفر خان اور چنیوٹ سے قاضی غلام علی و قاضی غلام مرتضیٰ کو مدعو کیا ۔ 1945ء میں جب پہلا الیکشن ہوا تو اس میں مسلم لیگ کی طرف نے نواب مظفر خان اور یونینسٹ پارٹی کی طرف سے ملک خضر حیات ٹوانہ مقابلہ میں آئے ۔ ملک خضر حیات ٹوانہ نے ڈپٹی کمشنر جھنگ سردار سعید زمان کو قاضی غلام مرتضی کی طرف یہ کہہ کر بھیجا کہ 250 ایکڑ اراضی، نواب کا خطاب اور سب رجسٹرار یا آنریری مجسٹریٹ کا عہدہ قبول کر لیں اور ووٹ یونینسٹ پارٹی کو دلائیں۔

قاضی غلام مرتضی نے اس کی ہر پیش کش کو ٹھکرادیا۔ اور مسلم لیگ کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے اپنی تحصیل سے 9 ووٹ دلا کر جتوایا۔ جس کے رعکس ان کی ذیلداری اور اسلحہ ضبط ہو گیا۔ قاضی غلام مرتضی متعدد بار چیر مین بلد یہ چنیوٹ مبر ضلع کونسل چیر مین مارکیٹ کمیٹی اور 1945ء میں ضلع جھنگ کے قرضہ بورڈ کے چیر مین بھی رہے۔ قاضی غلام شبیر 1965 میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ قاضی غلام دستگیر 1964ء میں چیر مین یونین کونسل اور چیئر مین مارکیٹ کمیٹی کے عہدہ پر فائز رہے۔ اور 1971ء میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑامگر الطاف حسین شاہ کے مقابلہ میں ہار گئے۔

قاضی صفدر علی 1945ء میں نائب صدر سٹی مسلم لیگ چنیوٹ ، 1946ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے پراپیگنڈہ سیکرٹری، شاہی مسجد چنیوٹ کی منتظمہ کمیٹی کے چیر مین ، 1979 تا 1983ء چیر مین بلد یہ چنیوٹ اور پھر دوبارہ 1986-87ء میں چیر مین بلدیہ، دو مرتبہ چیر مین مارکیٹ کمیٹی رہے۔ 1958 میں نان آفیشل جیل وزٹ 1959 میں چیف وارڈن اور 1964ء میں چیف وارڈن سول ڈیفنس کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔ اب مسلم لیگ (نواز گروپ) کے تحصیل صدر ہیں۔ قاضی غلام دستگیر کے صاحبزادے قاضی علی حسن رضا پی 1990ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ 1993ء میں دوسری مرتبہ نمبر صوبائی اسمبلی پنجاب منتخب ہوئے اور مشیر وزیر اعلیٰ نامزد ہوئے ۔ اور اکتوبر 2002 ء کے الیکشن میں تیسری مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ قاضی صفدر علی کے صاحبزادے حسن علی قاضی 2001ء میں یونین کونسل 39 کے ناظم اور پبلک سیفٹی کمیشن جھنگ کے نمبر منتخب ہوئے۔

مولا نا چنیوٹی صاحب:

ایک عہد ساز شخصیت مولانا منظور احمد چنیوٹی 31 دسمبر 1931ء کو چنیوٹ کے راجپوت ( بھکھی ) گھرانہ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم چنیوٹ سے حاصل کی ۔ گھیکھ 1951ء میں مزید تعلیم کے لئے جامعہ اسلامیہ ٹنڈو اللہ یارسندھ چلے گئے ۔ اس کے بعد ملتان میں امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے مدرسہ سے ایک سالہ رو قادیانیت کورس کیا۔

1953ء کی تحریک ختم نبوت کیلئے بھر پور کام کیا، گرفتار ہوئے اور متعدد بار جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ پہلی مرتبہ 22 سال کی چھوٹی سی عمر میں 6 ماہ قید رہے۔ آپ کو 25 مرتبہ حج اور متعدد بار عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی ۔ ہزاروں غیر مسلموں (بالخصوص قادیانیوں) کے دلوں میں عشق رسول کی شمع فروزاں کر کے مشرف بہ اسلام کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ 35 ملکوں کے متعدد دورے کئے اور لا تعداد غیر ملکی کانفرنسوں میں شرکت کر کے مقالہ جات پڑھے ۔ آپ نے قادیانیت کے کفر کو پورے عالم میں یورپ، افریقہ، ایشیاء خلیج ہر جگہ عیاں کیا۔ دنیا کے کئی ممالک میں آپ کی کوششوں سے قادیانیوں کو غیر مسلم قراردے دیا گیا۔ آپ پہلی مرتبہ 1970ء میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے مگر سید الطاف حسین شاہ کے مقابلہ میں ہار گئے ۔

1971ء میں ہی چنیوٹ میں آپ کا نیا سیاسی گروپ بنا جو کہ ”مولوی گروپ“ کے نام سے مشہور ہوا۔ پھر تین مرتبہ 1985ء،1988ء، 1997ء میں چنیوٹ کے حلقہ میں ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ ایک مرتبہ 1990ء میں بلد یہ چنیوٹ کے چیر مین بھی رہے۔ایلیمنٹری کالج کا قیام (سی ٹی، پی ٹی سی ) دریائے چناب کے پرانے پل کی دو کروڑ روپے کی خطیر رقم سے مرمت ، 30 کنال زمین محکمہ اوقاف اور محکمہ صحت سے لے کر محکمہ تعلیم (برائے گرلز ڈگری کالج) دلوانے اور T .H,Q ہسپتال کو اپ گریڈ کروا کر 120 بستر کروانا آپ کے اہم کا رہائے نمایاں ہیں ۔

قادیانیوں کے کفریہ عقائد کو منظر عام پہ لانے کے تمام عالم اسلام آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آپ تا حیات نائب امیر پاکستان شریعت کو نسل اور سیکرٹری جنرل انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے۔ ربوہ کا نام چناب نگر تبدیل کروانا آپ کا اہم تاریخی کا رنامہ ہے۔ تمام عالم اسلام آپ پر فخر کرتا ہے۔ آپ 27 جون 2004 ء بروز اتوار بوقت 11 بجے دن شریف میڈیکل کمپلیکس رائے ونڈ روڈ لاہور میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ مورخہ 28 جون 2004 ء بروز سوموار صبح 8 بجے اسلامیہ کالج گراؤنڈ میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی گئی۔ جس میں ملک کے مختلف شہروں کے علا وہ دنیا کے کئی ممالک سے لوگوں نے شرکت کی ۔ چنیوٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔

لالی خاندان:

ملکی سیاست میں باقی خاندانوں کی طرح لالی خاندان کا بھی نمایاں کردار ہے۔ 1951ء کے انتخابات میں مہر محمد خان لالی کے مقابلہ میں مہر محد محسن لالی، ایم ایل اے منتخب ہوئے۔1971ء میں مہر دوست محمد ولد مہر اللہ یا ر لالی ، مہر غلام عباس لالی کے مقابلہ میں بحیثیت آزاد امیدوار صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر منتخب ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور 1977 تک پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے۔ اور بھوانہ حلقہ کا ٹکٹ لے کر سردار زادہ ظفر عباس سید کے مقابلہ میں شکست کھا گئے ۔ دوبارہ 1981 میں صدر نرل ضیاء الحق کی مجلس شوری کے نمبر نامزد ہوئے ۔ 1985ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر سردار محمد علی شاہ کے مقابلہ میں ہار گئے ۔ اور اسکے بعد انہوں نے 1988 میں قومی اسمبلی کے ایکشن میں حصہ لیا اور سید امیر حسین شاہ کے مقابلہ میں کست کھائی۔ ان کے صاحبزادے مہر غلام محمد لالی نے پہلی مرتبہ 2001 ء کے بلدیاتی انتخابات میں امیدوار برائے ضلعی نائب ناظم قدم رکھا لیکن کامیابی حاصل نہ کر سکے۔

اس کے بعد اکتوبر 2002 ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (قائد اعظم) گروپ کی طرف سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے لیکن اس میں بھی شکست کھا گئے ۔ 1985ء میں مہر دوست محمد ولد مہر امیر بخش لالی حلقہ پی پی 58 سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے مگر ملک غلام عباس توآنہ کے مقابلہ میں ہار گئے۔ اور دوبارہ 1988ء میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور ملک غلام عباس نسوآنہ کے مقابلہ میں منتخب ہوئے ۔ اس کے بعد 1990ء میں مسلم لیگ (نواز گروپ) کی طرف سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ مہر ریاض احمد لالی مسلم لیگ (نواز گروپ) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے لیکن سید امیر حسین شاہ کے مقابلہ میں ہار گئے ۔ 1993ء میں مہر امتیاز احمد لالی پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے اور ملک غلام عباس نسوآنہ کے مقابلہ میں شکست کھا گئے۔ دوبارہ 1997ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حاجی امجد علی ولد مہر سرفراز لالی کے مقابلہ میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔

اور اکتوبر 2002 ء میں دوسری مرتبہ بھی ایم پی اے منتخب ہو گئے۔ میر احمد عمر لائی 2003ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے تحصیل صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے ۔ 2001ء کے بلدیاتی انتخابات میں مہر محمدممتاز ولد مہر برخوردار لالی یونین کونسل نمبر 43، مہر محمد حیات لالی یونین کونسل نمبر 5 جبانہ سے با مقابلہ اور مہر لیاقت علی لالی یونین کونسل نمبر 6 سے بلا مقابلہ ناظم منتخب ہوئے۔ اور مہر مسعود احمد لالی تحصیل نائب ناظم منتخب ہوئے۔

شیخ سلمانے سیّد:

سردار الطاف حسین شاہ کے والد محترم سید غلام علی شاہ 1887ء میں پہلی مرتبہ بلد یہ چنیوٹ کے فاؤنڈر مبر منتخب ہوئے۔ 1906ء میں چنیوٹ کے ذیلدار نامزد ہوئے۔ سردار الطاف حسین شاہ نے 1937ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور قائد اعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان کیلئے کام کرتے رہے۔ 15 سال تک سٹی مسلم لیگ کے نائب صدر رہے۔ 1951ء میں آپ نے عوامی لیگ پارٹی کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ آپ پنجاب اسمبلی کے سب سے کم عمر رکن تھے ۔ آپ نے قومی وملی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سب سے پہلے چنیوٹ تا جنگ ہانیہ سڑک آپ ہی کی کوششوں سے تعمیر ہوئی ہے۔ جب ہندوستان سے مہاجرین کے لئے ہوئے قافلے پاکستان پہنچے تو آپ نے 35 ہزار روپے کی کثیر رقم سے ان کی امداد کی۔

1971ء میں آپ آزاد امیدوار کی حیثیت سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے جس میں مولانا منظور احمد چنیوٹی و قاضی غلام دستگیر کے مقابلہ میں کامیابی حاصل کر کے ایم پی اے منتخب ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 1973ء تا 1977 ء دی پنجاب پراونشل کو آپریٹو بنک کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ پر فائز رہے۔ آپ نے سردار صغیر احمد گجر صوبائی وزیر مال کے ساتھ مل کر 1976ء کو چنیوٹ میں سوئی گیس پائپ لائن بچھوائی اور گرلز انٹر کالج قائم کروایا۔

سید امیر حسین شاہ 1977ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر قاضی صفدر علی اور مولانا منظور احمد چنیوٹی کے مقابلہ میں ایم پی اے منتخب ہوئے۔ 1988ء اور 1990ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے اور دونوں مرتبہ ایم این اے منتخب ہوئے۔

حاجی محمد رضا شاہ 1997ء میں مسلم لیگ (نواز گروپ) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے مگر قیصر احمد شیخ کے مقابلہ میں ہار گئے۔

سید عنایت علی شاہ ایڈووکیٹ رئیس آف احمد آباد 2001ء میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر ناظم یونین کونسل منتخب ہوئے۔ اکتوبر 2002ء میں مسلم لیگ (قائد اعظم) کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا مگر قاضی علی حسن رضا بچی کے مقابلہ میں ہار گئے۔

سردار الطاف حسین شاہ کے بڑے صاحبزادے سید قیصر علی رضا شاہ 1981ء تا
1997 تک بلدیاتی انتخابات میں تین مرتبہ بلا مقابلہ اور دو مرتبہ با مقابلہ کونسلر منتخب ہوئے۔ 1988ء میں انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا مگر مولا نا منظور احمد چنیوٹی کے مقابلہ میں ہار گئے۔ اپریل 2004 ء میں انہوں نے یونین کونسل نمبر 37 کے ضمنی انتخابات برائے نائب ناظم میں حصہ لیا اور مولوی گروپ کے امیدوار شفقت حسین بیچ کے مقابلہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔

نسوانه خاندان:

ملک محمد ممتاز نسو آنہ موضع کا نڈیوال کے زمیندار گھرانہ میں 1936ء میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے 1960ء میں لاء کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے وکالت کی ڈگری حاصل کی ۔ 1965ء میں انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور بی ڈی ممبر منتخب ہوئے اور اسی یونین کونسل کے چیر مین بھی رہے۔ 1971ء میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور مہر حبیب سلطان لالی کے مقابلہ میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ انہوں نے 1979ء کے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کر کے چیر مین ضلع کونسل جھنگ کے عہدہ پر فائز ہوئے ۔ 1983ء میں انہوں نے دوبارہ انتخابات میں حصہ لیا اور ملک غلام عباس نسوآنہ کے مقابلہ میں کامیاب ہوئے ۔ یکم نومبر 1983ء کو آپ خالق حقیقی سے جاملے ۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے ملک کامران ممتاز نسوانہ نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور 1996ء کے بلدیاتی انتخابات میں ملک ظفر عباس نسوآنہ کے مقابلہ میں کامیابی حاصل کر کے ممبر ضلع کونسل جھنگ منتخب ہوئے ۔

ملک غلام عباس نسوآنہ نے 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں پہلی مرتبہ حصہ لیا مگر ملک محمد ممتازنسوآنہ کے مقابلہ میں ہار گئے ۔ 1985ء میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا جس میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ دوبارہ 1988ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں صہ لیا مگر مہر دادوست محمد ولد مہر امیر بخش لالی کے مقابلہ میں شکست کھا گئے۔ 1993ء میں تیسری مرتبہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ کر ایم پی اے منتخب ہوئے۔ 2001ء میں تحصیل ناظم کا الیکشن لڑے مگر سردار زادہ ذوالفقار علی شاہ کے مقابلہ میں ہار گئے۔

میاں احمد علی نیکوکارہ:

میاں احمد علی نیکو کارہ تمبر 1929ء کو میاں کرم شاہ نیکوکارہ کے ہاں چونتر یا نوالہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اور مڈل سکول چک نمبر 10 ج- ب گجراں سے حاصل کی ۔ میٹرک کا امتحان اسلامیہ ہائی سکول طارق آباد فیصل آباد سے پاس کیا۔ انہوں نے 1953ء میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے گریجوایشن کی اور 1956ء میں لاء کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے لاء گریجوایٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ آپ 1948ءتا1952ء گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں نیو ہاسٹل کے پریڈیکٹ اور اتھلیٹک ٹیم کے کپتان رہے۔ اس وقت آپ کی ٹیم نے 440 گزریس میں پنجاب یونیورسٹی کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ جس وجہ سے آپ کی ٹیم کو رول آف آنر دیا گیا۔ جو کہ کالج کا بہت بڑا ایوارڈ تھا۔ 1957ء میں آپ نے چنیوٹ سے قانون کی پریکٹس کا آغاز کیا۔ 60-1959ء میں چنیوٹ بار کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور آپ کے ساتھ بزرگ وکیل شیخ محمد امین صدر منتخب ہوئے۔ 1965-66ء میں آپ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن میں الیکشن ایجنٹ مقرر ہوئے۔ 1971ء میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں آپ نے سردار الطاف حسین شاہ کا ساتھ دے کر انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔

آپ نے 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کر کے مہر سارنگ ہرل کے مقابلہ میں ممبر ضلع کونسل جھنگ منتخب ہوئے ۔ 1987ء میں آپ دوبارہ ضلع کونسل جھنگ کے ممبرمنتخب ہوئے۔ 1988ء میں آپ نے پہلی مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور اپنے حاتمہ سے 11500 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر آئے ۔ 1997ء کے قومی وصوبائی انتخابات میں آپ نے حضرت مولا نا منظور احمد چنیوٹی اور قیصر احمد شیخ کی بھر پور حمایت کر کے کامیاب کروایا ۔ جس کا ہر دو ممبران نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے برملا اعتراف کیا۔ آپ کے بڑے بھائی میاں نذیر احمد نیکو کارہ بہت بہادر ، با اثر و بارعب شخصیت کے مالک تھے ۔ وہ دو مرتبہ نمبر ڈسٹرکٹ بورڈ جھنگ رہے۔

میاں احمد علی نیکوکارہ اچھے اخلاق و صفات کے مالک ہیں۔ اس لئے ہر امیر و غریب انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ان کی خدمات چنیوٹ میں زبان زد عام ہیں ۔ جہاں صاحب ایک ہر دلعزیز شخصیت ہیں ۔ سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی ورکر اور سماجی شخصیت ہیں ۔

سردار صغیر احمد گجر:

سردار صغیر احمد گجر نے سب سے پہلے گورنر پنجاب ملک امیر محمد خان نواب آف کالا باغ کے دور میں یونین کمیٹی کا الیکشن لڑ کر سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور میونسپل کمیٹی چنیوٹ کے وائس چیر مین رہے۔ 1968ء میں آپ ہی کی کوششوں سے فائر برگیڈ گاڑی خریدی گئی اور اندرون شہر گلیوں و بازاروں میں سٹریٹ لائٹس کا انتظام کیا اور پختہ سلیب ڈلوائیں جو ابھی تک اپنی اصل حالت میں ہیں۔ آپ ایل ایل بی گر یجو یٹ تھے اور چنیوٹ میں ہی پریکٹس کرتے تھے ۔ 1971ء میں آپ سلانوالی (سرگودہا) کے حلقہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ کر ایم پی اے منتخب ہوئے۔74-1973ء میں صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور لیبر ڈیپارٹمنٹ کے عہدہ پر فائز رہے اور 1976ء کو چنیوٹ میں پہلی مرتبہ سوئی گیس کی تنصیب کروائی ۔

1974ء میں آپ صوبائی وزیر مال کے عہدہ پر فائز ہو گئے ۔ 1974ء میں ہی انہوں نے چنیوٹ تا پنڈی بھٹیاں دریائے چناب کے ساتھ حفاظتی بند تعمیر کروایا ۔ 1977ء میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سلانوالی سرگودہا کے حلقہ سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ 1982ء میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد آپ کے صاحبزادے سردار طارق صغیر گجر نے 1983ء میں ضلع کونسل سرگودہا کا الیکشن لڑ کر نمایاں کامیابی حاصل کی۔1985ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے جس میں شکست کھا گئے ۔ 1999ء میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر بلدیہ چنیوٹ کے ممبر منتخب ہوئے اور اپنے گروپ سے سید ظفر عباس بخاری کو چیر مین بلد یہ چنیوٹ منتخب کروایا ۔ 2001ء میں یونین کونسل نمبر 34 رطن آباد سے الیکشن لڑ کر ناظم منتخب ہوئے اور ساتھ ہی ڈسٹرکٹ ریونیو کمیٹی کے چیر مین ہیں۔ سردار صغیر احمد گجر کے خاندان کے دو اور افراد سردار ناصرمحمود گجر اور سردار رفیق احمد گجر 1999ء میں بلد یہ چنیوٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔

حاجی مہر محمد حیات جیہ:

حاجی مہر محمد حیات جپہ موضع عدلانہ کے ایک اچھے زمیندارر تھے۔ اور سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے 1988ء میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر سیاست میں قدم رکھا مگر شکست کھا گئے ۔ پھر 1990ء اور 1993ء میں الیکشن لڑے مگر تینوں مرتبہ سردار زادہ محمد طاہر شاہ کے مقابلے میں ناکام ہو گئے ۔ 1997ء میں چوتھی مرتبہ مسلم لیگ (نواز گروپ) کی طرف سے صوبائی املی کا الیکشن لڑے جس میں سید حسن مرتضی کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔

مولانا محمد ذاکر:

مولانا محمد ذاکر جامعہ محمدی شریف کے بانی و ناظم اعلیٰ تھے ۔ آپ نے 1944ء کو مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور مسلم لیگ ضلع جھنگ کے نائب صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے ۔ 1946ء میں مجلس عاملہ کے رکن مقرر ہو گئے ۔ 1951ء میں پہلی مرتبہ الیکشن لڑے جس میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ دوبارہ آپ نے 1958 کے الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کی ۔ 1971ء کے الیکشن میں تیسری مرتبہ کامیابی حاصل کر کے ایم این اے منتخب ہوئے ۔ 1976ء میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد آپ کے صاحبزادے مولانا محمد رحمت اللہ 1977ء میں پہلی مرتبہ الیکشن لڑے مگر غلام حیدر بھروانہ کے مقابلہ میں شکست کھا گئے ۔ 1985ء میں غیر جماعتی الیکشن لڑ کر محمد فضیل بھروانہ کے مقابلہ میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے ایم این اے منتخب ہوئے۔ 1988ء میں قومی اسمبلی کے الیکشن میں سیدہ عابدہ حسین کے مقابلہ میں شکست کھا گئے۔ پھر 1990ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے اور مخدوم زادہ اسد حیات کے مقابلہ میں کامیاب ہو کر ایم این اے منتخب ہوئے ۔

1993ء کے الیکشن میں مخدوم زادہ اسد حیات کے مقابلہ میں ناکام ہو گئے ۔ 1997ء میں الیکشن لڑے اور مخدوم زادہ اسد حیات کے مقابلہ میں کامیاب ہو کر ایم این اے منتخب ہوئے۔ اکتوبر 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے مگر سردارزادہ محمد طاہر شاہ کے مقابلہ میں شکست کھا گئے۔ کے عہدہ پر فائز ہو گئے ۔ 1974ء میں ہی انہوں نے چنیوٹ تا پنڈی بھٹیاں دریائے چناب کے ساتھ حفاظتی بند تعمیر کروایا ۔ 1977ء میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سلانوالی سرگودہا کے حلقہ سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ 1982ء میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد آپ کے صاحبزادے سردار طارق صغیر گجر نے 1983ء میں ضلع کونسل سرگودہا کا الیکشن لڑ کر نمایاں کامیابی حاصل کی ۔

1985ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے جس میں شکست کھا گئے ۔ 1999ء میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر بلد یہ چنیوٹ کے ممبر منتخب ہوئے اور اپنے گروپ سے سید ظفر عباس بخاری کو چیئر مین بلد یہ چنیوٹ منتخب کروایا ۔ 2001ء میں یونین کونسل نمبر 34 رحمن آباد سے الیکشن لڑ کر ناظم منتخب ہوئے اور ساتھ ہی ڈسٹرکٹ ریونیو کمیٹی کے چیر مین ہیں۔ سردار صغیر احمد گجر کے خاندان کے دو اور افراد سردار ناصر محمود گجر اور سردار رفیق احمد گجر 1999ء میں بلدیہ چنیوٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔

حاجی مہر محمد حیات جپہ:

حاجی مہر محمد حیات جپہ موضع عدلانہ کے ایک اچھے زمیندار تھے۔ اور سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے 1988ء میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر سیاست میں قدم رکھا مگر شکست کھا گئے ۔ پھر 1990ء اور 1993ء میں الیکشن لڑے مگر تینوں مرتبہ سردارزادہ محمد طاہر شاہ کے مقابلے میں نا کام ہو گئے ۔ 1997ء میں چوتھی مرتبہ مسلم لیگ (نواز گروپ) کی طرف سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے جس میں سید حسن مرتضی کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔

 

نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر ارشاد احمد تھیم کی کتاب (تاریخ چنیوٹ) سے لیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com