پس منظر:
برصغیر میں بیسویں صدی کا آغاز غلامی کی اٹھی کہانیوں سے ہوتا ہے جنھیں مورخ نے ڈیڑھ سو سال قبل لکھنا شروع کیا تھا۔ حریت فکر پہ پہرے قائم تھے اور آزادی اظہار کے گرد فصیلیں کھڑی تھیں ۔ استبداد کے ان اندھیروں میں کچھ عہد ساز لوگوں نے فکر وعمل کے چراغ روشن کئے اور اپنے قلم کو قندیل بنا کر سیاست کے ساتھ ساتھ صحافت کے ذریعے قوم کی رہ نمائی کا بیڑہ اٹھانا شروع کر دیا۔ ان شخصیات میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، مولانا حسرت موہانی اور مولا نا محمد علی جو ہر نمایاں ہیں۔ یہ وہ ہر اول دستہ تھا جس نے صحافت کے میدان پر خار سے کانٹے چننا شروع کئے تا کہ اس ڈگر پر چلنے والوں پر راستے کی صعوبتیں کم ہو سکیں۔
ابوالکلام آزاد نے 1900ء میں کم سنی میں ہی کلکتہ کے ہفت روزہ اخبار الصباح“ کی ادارت سنبھالی۔ مولانا ظفر علی خان کے والد مولانا سراج الدین نے 1903ء میں مفت روزہ ”زمیندار“ کا اجراء کیا جسے 1909ء میں ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند ظفر علی خان نے شہرت کے نصف النہار تک پہنچا دیا۔ مولانا حسرت موہانی نے 1903ء میں ”اردوئے معلیٰ کا آغاز کیا اور اردو شاعری کی روایات کے پیش نظر پہلے پہل رمز و کنایہ کے پیرائے میں اور رفتہ رفتہ مکمل جرات و بے باکی سے افکار تازہ کا علم لہرانا شروع کر دیا۔ مولانامحمد علی جو ہر 1910ء میں کامریڈ اور ہم درد کے جلو میں ابھرے اور ان کے دم سے شن صحافت میں پھول ہی پھول بکھر گئے ۔ آزادی فکر اور جرات اظہار کی یہ ہر محض چند شہروں تک محدود نہ ھی بل کہ اس کے اثرات پورے برصغیر میں پھیلنا شروع ہو گئے اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی حکایات جنوں رقم ہونے لگیں۔
چنیوٹ ان دنوں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جس کے درودیوار پہ غربت اور پسماندگی کی مہر ثبت تھی۔ آمد ورفت اور رسل در سائل کے ذرائع مفقود تھے۔ نہ ریل اس طرف کا رخ کرتی تھی اور نہ ہی دریائے چناب کے کناروں پہ پل کی کمان کھنچی تھی ۔ معاشی کسمپرسی اور جاگیردارانہ نظام کی شکار یہ ہستی بیسویں صدی میں قدم رکھتے ہوئے اپنی کم مائیگی کے احساس سے ہچکچا رہی تھی ۔ لیکن ان نامساعد حالات میں بھی اس شہر علم وفن میں کچھ ایسے لوگ سامنے آئے جنھوں نے ابوالکلام کی علمی روایات، ظفر علی خان کیا جرات و بے باکی حسرت موہانی کی درویشی اور محمد علی جوہر کی فصاحت و بلاغت کی سنہری روایات کی پیروی کی۔
چنیوٹ کے کوچہ صحافت کے پہلے سنگِ میل کی حیثیت ایک علم دوست شخصیت حافظ خدا بخش صغیر کو حاصل ہے۔ جنھوں نے 1905ء میں یہاں سے ایک مفت روزہ المنیر ” کا اجراء کیا۔ جہالت کے اندھیروں میں یہ وہ پہلا چراغ تھا جس کی بدولت اس شہر کے افق پر علم وادب کے اجالے پھیلنے لگے۔ اس زمانے میں جھنگ سے ایک ہندو جریدہ جھنگ سیال کے نام سے نکلتا تھا۔ تعصب اور تنگ نظری کی بناء پر اس میں مسلمانوں کو خوب مشق ستم بنایا جاتا ۔ جھنگ کے مسلمان زعماء اور اہل قلم نے اس کی یادہ گوئی کا خاطر خواہ جواب دینے کے لئے حافظ خدا بخش کو دعوت دی کہ وہ جھنگ شہر سے جو ضلعی صدر مقام بھی تھا ایک رسالہ نکالیں جو ضلع بھر کے مسلمانوں کی ذہنی و فکری تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کو منظر عام پر لا سکے اور مذکورہ ہند و پرچے کی متعصبانہ حکمت عملی کا پردہ بھی چاک ہو۔ حافظ صاحب نے وقت کی اس ضرورت کو پہچانا’ اپنی ساری جمع پونچی سمیٹی جو کہ ان کے قلم اور دستی پریس پر مشتمل تھی اور رسالہ المنیر لے کر جھنگ منتقل ہو گئے اور اس طرح ضلع بھر کے مسلمان ” المنیر “ سے فیض یاب ہونے لگے۔ جھنگ میں ایک زبر دست قلمی جنگ اور معاصرانہ چشمک کا آغاز ہوا۔ حافظ صاحب کا قلم شمشیر براں سے کم نہ تھا۔ انھوں نے اپنے بھر پور انداز اور برجستہ طرز تحریر سے ادارہ جھنگ سیال کی دھجیاں بکھیر دیں اور یوں حافظ صاحب اور ان کے حلقہ ادارت کے زور قلم کی تاب نہ لاتے ہوئے ان کے مخالفین کو رسالہ جھنگ سیال بند کرنا پڑا۔
حافظ خدا بخش میدان مار چکے تو جھنگ کو خدا حافظ کہا اور پھر سے چنیوٹ واپس پلٹ آئے ۔ لیکن یہاں آکر المنیر کے دوبارہ اجراء کی بجائے وہ انجمن اسلامیہ چنیوٹ سے منسلک ہو گئے اور اپنا تن من دھن انجمن کے تحت تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے وقف کر دیا۔ حافظ صاحب اپنی زندگی کے آخری سانسوں تک انجمن سے ہی وابستہ رہے۔ 1940ء میں ان کی وفات کے ساتھ ہی چنیوٹ میں صحافت کا اولین باب ختم ہو گیا۔
حافظ صاحب کی تاریخ ساز شخصیت کو خاک میں پنہاں ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان کی قبر پہ کبھی کبھار روشن ہونے والا دیا آج بھی منتظر ہے کہ صحافیوں کی نوجوان نسل کبھی تو اپنی
عقیدت کے پھول نچھاور کرنے وہاں پہنچے گی۔ شاید اس ہجوم میں کوئی بھی نہیں جانتا کہ بنجر زمین میں
علم و آگہی کا پہلا پیچ بونا کس قدر مشکل مرحلہ ہے۔
یاد خدا ( دور اول):
کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد ! المنیر کے بعد کسی اور جریدے کے اجراء تک چنیوٹ کو تین دھائیاں انتظار کر نا پڑا۔ اس طویل عرصہ میں اس شہر کی ایک نسل من شعور سے ہمکنار ہوئی اور ایک نسل دنیا سے کنارہ کر گئی ۔ تب کہیں جا کے وہ روایات برگ و بار لائیں جن کا آغاز المنیر نے کیا تھا۔ یہ رسالہ ایک نو مسلم ڈاکٹر عزیز علی نے شروع کیا۔
ہومیو پیتھک ڈاکٹر عزیز علی اپنے عہد کی بڑی بھر پور شخصیت تھے۔ انھوں نے چنیوٹ کی ادبی اور سماجی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی جرات و بے با کی بل کہ گستاخیوں کی داستان آج بھی چنیوٹ کا طرہ امتیاز ہے۔ ڈاکٹر صاحب مشرف بہ اسلام ہونے سے قبل چنیوٹ کے ایک نواحی قصبہ پنڈی بھٹیاں میں پریکٹس کرتے تھے۔ بچپن ہی سے آزاد منش اور باغیانہ سرشت کے مالک تھے۔ ان کی پیدائش پر ہندو پنڈتوں نے جو جنم پتری بنائی اس کے مطابق نومولود پر تھی لال کے مقدر میں ناستک“ یعنی مذہب سے باغی ہونا لکھا تھا۔ شاید یہ قبولیت کی گھڑی تھی کہ ڈاکٹر صاحب سن بلوغت کو پہنچے تو طبیعت بت پرستی سے بے زار ہو کر دین اسلام کی طرف راغب ہونے لگی اور بالآخر ایک روز بتکدے سے منہ موڑ لیا اور حرم کی راہ پر چل دیئے۔ ان کے اہل خانہ اور عزیز واقارب کو یہ جسارت پسند نہ آئی اور ان کا سماجی مقاطعہ شروع ہو گیا۔ اپنے بے گانے ہو گئے اور بے گانوں نے دشمنی اختیار کر لی۔ حالات اس حد تک دگرگوں ہوئے کہ انھیں اپنے گھر بار کو الوداع کہنا پڑا اور یوں حقیقت کی جست جو نے ان کا رشتہ ایک دائگی آزمائش سے جوڑ دیا۔
پنڈی بھٹیاں سے ہجرت کے بعد ڈاکٹر عزیز علی کچھ عرصہ سادات رجوعہا کی پناہ میں رہے اور پھر چنیوٹ میں سکونت اختیار کر لی۔ یہاں بھی ہندو سماج کی طرف سے طعن و تشنیع اور صعوبتوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو انھوں نے سرگودھا کا انتخاب کیا اور جنوری 1937ء میں وہاں سے ماہنامہ یاد خدا کا آغاز کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب کی مضطرب شخصیت جس کش مکش حیات کی خواہاں تھی وہ سرگودھا میں میسر نہ آئی۔ نتیجہ یہ تھا کہ جلد ہی اس شہر سے انکی طبیعت اچاٹ ہوگئی اور وہ اگست 1937ء میں پھر سے چنیوٹ چلے آئے۔ اس نقل مکانی کی بدولت یا خدا کا مقام اشاعت بھی چنیوٹ مقرر ہوا۔ ستمبر 1937 ء تک یاد خدا ماہوار رسالہ کی صورت میں ہی شائع ہوتا رہا مگر تمبر 1938ء میں اسے ماہوار رسالہ کی بجائے ہفتہ وار اخبار کی صورت میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس تبدیلی کے باوصف اس رسالے کی مقبولیت دو چند ہو گئی۔ ہر کس و ناکس کے دل میں یا دخدا نے ڈیرے ڈال دیئے اور چنیوٹ کی شہری زندگی میں ایک تہلکہ بچ گیا۔ رفتہ رفتہ جب ڈاکٹر صاحب کی شخصیت نے اپنا رنگ جما لیا تو اس رسالے کے توسط سے چنیوٹ کی علمی، ادبی اور سماجی زندگی کی نئی تاریخ رقم ہونے لگی۔ اپنی جرات اور حق گوئی کی بدولت بہت جلد اس جریدہ کو مسلم حقوق کے علم بردار کا مقام حاصل ہو گیا۔ بقول نذیر مجیدی یاد خدا اور مسلمان ایسے لفظ ہیں جو لازم وملزوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ ادھر یا د خدا کا لفظ زبان پر آیا ادھر مسلمان کا تصور پیدا ہوا۔
کر دیا یاد خدا نے ہمیں زندہ ورنہ
عالم یاس میں جینا ہمیں منظور نہ تھا
نذیر مجیدی جو یا خدا کی مجلس ادارت میں شامل تھے اپنے ایک مضمون ” قوم اور یاد خدا میں لکھتے ہیں:
چنیوٹ کی بستی سے ایک مسلم اخبار کا اجراء ایس ہم غنیمت است” کے مصداق ہے اور اہالیانِ شہر کی خوش قسمتی ہے کہ قدرت نے ایسے حالات پیدا کر دیئے جن کی موجودگی میں اہل شہر کی بے شمار حاجتیں اور بعض اوقات نہایت اہم امور اس اخبار کی وساطت سے انجام پا رہے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز علی جب سے مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں میں نے ان کی فطرت و سرشت کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور بلا خوف تردید کہنے کی جرات کرتا ہوں کہ اس بلند ہمت بے باک اور پاک باطن انسان کی فطرت سلیم کو کفر کی گمراہ اور ضلالت مآب فضا کیوں کر راس آسکتی تھی۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے فوراً بعد ہی آپ نے قوم وملت کی خدمت کا بیڑہ اٹھایا اور ابتدا محض اس خیال سے کہ تبلیغ اسلام بھی مسلمان کا ایک اہم فرض منصبی ہے یا د خدا کے نام سے ایک رسالہ سرگودھا سے جاری کر دیا۔ اس میں چند تبلیغی مضمون ہوتے تھے ۔ اگر چہ اس کے ناظرین نے کافی سے زیادہ رسالہ مذکور کی قدر افزائی کی مگر ڈاکٹر صاحب موصوف کی منزل مقصود کوئی اور مقام بلند معلوم ہوتا ہے۔ آپ کے خیالات میں انقلاب پیدا ہوا اور آپ نے سوچا کہ عوام الناس کی سیاسی رہ نمائی کرنا بھی ایک اہم قومی فریضہ ہے۔ چنانچہ آپ نے یاد خدا کی مذہبی حیثیت کو بھی برقرار رکھا اور اس کے ساتھ ہی سیاسی امور پر جن میں مقامی اور ضلع کے حالات اور واقعات خاص طور پر مد نظر تھے خامہ فرسائی شروع کر دی اور یاد خدا کو ماہنامہ کی بجائے ہفتہ وار کر کے مقام اشاعت سرگودھا سے چنیوٹ مقرر کر دیا۔
( یاد خدامئی 1943ء)
ان دنوں چنیوٹ سیاسی اور معاشرتی ابتری کا شکار تھا۔ ہندوؤں کے معاشی تسلط جاگیردارانہ نظام کی قباحتوں اور سالہا سال کی محکومی کی بناء پر جہاں عام لوگوں کی زندگی اجیران ہوگئی تھی وہیں مسلم معاشرہ ذہنی اور فکری انتشار کی زد میں تھا۔ مقامی قیادت محض نام و نمود اور ذاتی اغراض و مقاصد میں الجھ کر رہ گئی تھی۔ وقت کے گنبد میں حق و صداقت کی گونج سنائی نہ دیتی ۔ عاقبت نا اندیش رہ نماؤں نے غریب مسلمانوں کو فرسودہ رسوم وروایات میں الجھا کر منزل سے بھٹکا دیا تھا۔ ان حالات میں ان کی رہ نمائی کے لئے قومی سطح کے علاوہ مقامی سطح پر بھی بھر پور کوششوں کی ضرورت تھی ۔ یاد خدا نے اس ضرورت کو بطریق احسن پورا کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اندیشہ سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر نہایت ہمت اور بے باکی سے اس جہاد کا آغاز کر دیا جسے جہاد افضل سے تعبیر کیا گیا ہے۔
23 ستمبر 1938 ء کے شمارے میں مجید امجد نے جو اس وقت مفت روزہ ” عروج جھنگ سے منسلک تھے یا دخدا کو مخاطب کر کے جو نظم تحریر کی وہ شاید مجید کے کسی بھی مجموعہ کلام میں شامل نہیں لیکن اس نظم کی اثر آفرینی ملاحظہ ہو کہ اس میں پوشیدہ پیغام رفته رفته یا دخدا کا مسلک بن گیا:
یاد رکھ اپنے خدا کو یاد رکھ
اپنے دل کو شاد رکھ آباد رکھ
اپنے مالک کی اطاعت فرض ہے
اپنے مالک کی اطاعت یاد رکھ
راہ حق میں جانِ شیریں کو لٹا
کچھ تو پاس شیوه فرہاد رکھ
جاگ اک تازہ جہاں آباد کر
اٹھ نئے اک دور کی بنیاد رکھ
زندگی کو غم سرائے دہر میں
جذبه یاد خدا سے شاد رکھ
ابتلا و آزمائش:
ڈاکٹر عزیز علی اور ان کے رفقائے کار کی یہ جست جو کئی بار آزمائش کا سبب بنی لیکن وہ ہر بار ان آزمائشوں سے سرخرو ہو کے نکلے۔ انھوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کو پروردگار کی عطا سمجھتے ہوئے راہ عمل کی بھٹی میں جھونک دیا تھا۔ یقین کامل اور جہد مسلسل، یہ وہ اوصاف تھے جن کی بدولت ان کی راہ میں مزاحم ہونے والی ہر دیوار مسمار ہو جاتی ۔ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ڈاکٹر صاحب ہر طاقت سے ٹکرا جایا کرتے ۔ 1939ء میں جھنگ میں ایک نہایت متعصب ہندو چوہدری کنور بھان بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تعینات ہوا ۔ موصوف کو مسلمانوں سے خاص بغض اور عناد تھا۔ ڈاکٹر عزیز علی کے باغیانہ مزاج نے اس متعصبانہ سلوک کو قبول نہ کیا اور چوھدری کنور بھان کے مقابلہ میں خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے۔ معاملات اس حد تک بگڑ گئے کہ انھوں نے چوھدری صاحب کے سیاہ کارناموں پر پر مشتمل یاد خدا کا کنور بھان نمبر نکال دیا۔ جس میں اس متعصب افسر کے معاندانہ طریقہ کار کو کھل کے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس نمبر میں ڈاکٹر عزیز علی کی ایک نظم بعنوان ” قصیدہ درشان چوہدری کنور بھان“ ان کے بے باک قلم کی ترجمانی کرتی ہے:
اسلامیوں پہ تاکہ یہاں کی زمیں ہو تنگ
آئے نہیں سے لالہ کنور بھان سوئے جھنگ
اسلام دشمنی کے تعصب کے دیوتا
قانون اپنے ڈھب پہ چلاتے ہیں جو سدا
دلی سے ان کو کام نہ ملتان سے غرض
ان کو فقط ہے خونِ مسلمان سے غرض
جتنے ہیں قرضہ بورڈ کے سب ہندو قرض خواہ
پاتے ہیں آکے لالہ کنور بھان سے پناہ
ان کو تم ہے ہندو کوئی جیل میں نہ جائے
مسلم کبھی پھنسے تو وہ بیچ کر کبھی نہ آئے
اتنا کرم وہ کرتے ہیں احباب پر سدا
دیتے ہیں مسکرا کے وہ دو سال کی سزا
دیکھیں اگر کہ یہ ہے زمیندار خود شناس
کہتے ہیں جی میں کاش یہ ملزم ہو میرے پاس
ظالم ہے اس قدر بخدا یہ مجسٹریٹ!
ہوتا اگر تو خوب تھا دوزخ کا ایک میٹ
جس طرح مانگی جاتی ہے شیطان سے پناہ
مانگ اس طرح عزیز کنور بھان سے پناہ
کنور بھان کی نا انصافیوں اور ناروا طرز عمل کا پول کھلا تو ضلع بھر کے ہندو اور کا نگری شور وغل پر اتر آئے اور ادارہ یاد خدا کے خلاف باقاعدہ مہم کا آغاز ہو گیا۔ مقامی پریس اور بار ایسوسی ایشن جھنگ کی جانب سے ڈاکٹر عزیز علی کی مذمت میں قرار دادیں منظور کرنے کی کوشش کی گئی۔ یاد خدا کے ایک کالم
راز و نیاز کے مصنف ”مسٹر نیازی کے مطابق:
کبھی ہند و سجا کی گنگا جمنی گا گر ادارہ یا دخدا پر سب و شتم کے عبیر وگلال چھڑکتی ہے۔ کبھی ہندو بار ایسوسی ایشن کی پیت نواس دیوی اپنی قانون شکن انکھڑیوں سے ریزولیوشن کی شیتل بجلیاں گرانے لگتی ہے تو کبھی جھنگ سیال“ کے گالی مندر کی نازنین سکھیاں لجالجا کر ایڈیٹر یاد خدا کے دامن میں دشنام طرازیوں کے شیریں پر شاد ڈالنا شروع کر دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ انھوں نے ” ناز انصاف‘ فخر عدل“ چوھدری کنور بھان صاحب اے ڈی ایم کی شان میں چند قصائد به صفت غیر منقولہ تحریر فرما دیئے ہیں اور پھر لطف یہ ہے کہ جناب کنور بھان خود تو چپ سادھ گئے ہیں لیکن ان کے ہم جاتی حواری زاغ و زغن کے روائتی شور و غوغا کے ساتھ یادخدا کے خلاف صف آرا ہو گئے ہیں ۔ لیکن مخالفت کے اس طوفان کے باوجو ڈاکٹر عزیز علی اپنے موقف پر قائم رہے اور انھوں نےاعلان کر دیا کہ:
"ہم نے چوہدری کنور بھان اے ڈی ایم جھنگ کی بے انصافیوں، متعصبانہ کاروائیوں اور بے ضابطگیوں کو جو وہ کرسی عدل و انصاف پر جلوہ گیر ہو کر کیا کرتے ہیں اور جو کسی عادل اور منصف مزاج حاکم کے شایان شان نہیں ہو سکتیں، پبلک اور حکومت کے سامنے کنور بھان نمبر کی صورت میں پیش کیا ہے حکومت کو چوھدری صاحب کے خلاف عائد کردہ الزامات کی آزادانہ تحقیقات کرنی چاہیے۔ اگر الزامات درست ہوں تو چو ہدی صاحب کے خلاف اور اگر الزامات غلط ثابت ہوں تو ایڈیٹر کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔
لیکن حکومت کی جانب سے تحقیقات کا اجراء نہ ہوا جس سے ڈاکٹر صاحب کے الزامات کی حقیقت ثابت ہوتی ہے۔ اس جرات رندانہ کے طفیل صحافت کا وقار تو ضرور بلند ہوا لیکن ڈاکٹر صاحب کو کئی ایک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس میں معاشی تنگ دستی کے علاوہ قید و بند کی صعوبتیں بھی شامل تھیں ۔ یاد خدا کے اشتہار بند ہوئے۔ خوف و ہراس کا سلسلہ شروع ہوا۔ جھوٹے مقدمے قائم ہوئے لیکن ایسے ہتھکنڈوں سے ڈاکٹر عزیز علی کی جرات کوز نجیر نہ پہنائی جاسکی۔ آزمائش کا یہ سلسلہ اتنادر از ہوا کہ ایک غلط مقدمہ کی آڑ میں انھیں ایک سال کی سزا کا حکم سنادیا گیا اور کوشش کی گئی کہ انصاف اور دادری کے سارے راستے مسدود کر دیئے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب کو ظلم کے اس زنداں میں کئی ماہ نا انصافی کی صلیب پر لٹکنا پڑا۔ اس دوران یاد خدا کی اشاعت منقطع ہو گئی اور مایوسیوں نے گھیرا ڈال دیا لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور نہایت مستقل مزاجی سے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ مشکلوں کے اس گرداب سے نکلنے کے لئے ان کے پاس دولت یا مراسم کا کوئی سفینہ نہ تھا۔ خود ان کے بقول ان مشکل حالات میں دیوان علی شاہ بخاری خط تیمی شیخ محمدسعید اور شخ حمد امین جیسے انسان دوست اور بلند کر دار لوگ ہی ان کی مد دکو پہنچے اور انھوں نے ان کی سزا کی تنسیخ کے لئے انصاف کے ہر کٹہرے تک آواز بلند کی۔
مجید امجد نے صفائی کا گواہ جن کے دوستی کا حق ادا کیا اور غریب مسلمان ڈاکٹر صاحب کے لئے دعاؤں کے چراغ روشن کرنے لئے کئی ماہ کی تگ ودو کے بعد بالآخر انگر یز ایڈیشنل سیشن جج مسٹر فلچر نے ان کی بے باک فطرت اور آزادانہ تنقید کے انداز کو سراہتے ہوئے قید و بند کی صعوبتوں سے نجات دلائی ۔ زنداں کے در وا ہوئے اور ڈاکٹر صاحب ہنستے مسکراتے یاد خدا کے پرانے شمارے بغل میں دبائے ایک بار پھر سے آواز حق بلند کرنے چنیوٹ پہنچ گئے ۔
اس ابتلا کی سرگزشت سناتے ہوئے ڈاکٹر عزیز علی لکھتے ہیں:
شکر ہے اس ذات باری تعالیٰ کا جس کے لطف وکرم سے آج پھر ہمیں قارئین یاد خدا کی خدمت میں پیش ہونے کا موقع میسر آیا ہے۔ دشمنانِ یا دخدا نے ہماری صداقت بھری آواز کو جو ہم حق و صداقت اور عدل و انصاف کی حمایت اور کذب و اختراع اور ظلم و نا انصافی کے خلاف ہمیشہ سے بلند کیا کرتے ہیں بند کرنے کے لئے باہمی سازش کی اور ہمارے خلاف ایک جھوٹا استغاثہ زیر دفعہ 500 تعزیرات ہند بعدالت سردار اقبال سنگھ مجسٹریٹ درجہ اول کر دیا۔ یہ استغاثہ محض اس لئے دائر کیا گیا کہ یا تو ہم حق وصداقت اور عدل و انصاف کا دامن چھوڑ کر ظلم و نا انصافی کے آگے سر تسلیم خم کر دیں یا جیل میں جانے کے لئے تیار رہیں۔ الحمد للہ ! ہمارے ضمیر نے ہماری رہ نمائی کی اور ہم نے فیصلہ کر لیا کہ جیل میں جانا تو در کنار اگر ہمیں جان بھی قربان کرنی پڑے تو بھی ہمارے لئے کذب و باطل اور ظلم و نا انصافی کے آگے سرخم کرنے کی بجائے حق و صداقت اور عدل و انصاف کے دامن میں پناہ گزیں رہنا ہی بہتر ہے۔
قید و بند اور دیگر مصائب نے ڈاکٹر صاحب اور ان کے رفقاء کے عزائم کو اور جلا بخشی اور یاد خدا اپنے بلند مقاصد کے حصول کے لئے بھر پور جد و جہد سے باز نہ آیا۔ مقامی مسائل سے لے کر ملکی اور بین الاقوامی امور تک ہر موضوع اس اخبار کی دسترس میں تھا۔ سماجی اور معاشی مسائل کے علاوہ انتظامی اور سیاسی افق پر بھی اس اخبار نے اہم کردار ادا کیا۔ تحریک پاکستان کے ضمن میں اس کے صفحات پر بکھرا ہوا مواد ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جس کا مطالعہ اس علاقے کی سیاسی بیداری اور ملی شعور کی نشاندہی کرتا ہے۔ 1940ء میں تحریک پاکستان کے باقاعدہ آغاز سے لے کر اس خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے تک یاد خدا نے اس علاقے کے مسلمانوں کے جذبات کی بلاخوف و خطر تر جمانی کی اور جرات و بے خوفی کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا۔ اس دور میں یاد خدا کے اداریے مضامین اور خبریں اس جذ بہ شوق سے مزین ہوتے تھے جس کا عنوان پاکستان ہے اور جس نے دل مسلم میں زندگی کی امید پیدا کر دی تھی۔ اس جذبے کے طفیل بالآخر ایک صبر آزما جد و جہد کے افق سے آزادی کا وہ سورج طلوع ہوا جس نے مسلمانوں کی زندگی
میں اجالا بکھیر دیا۔
قیام پاکستان کے بعد جب آبادی کی نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے مسلمان مہاجرین کی آبادکاری کے لئے عارضی طور پر یاد خدا کی اشاعت کا سلسلہ منقطع کر کے خود کو اصلاحی تحریکوں کے لئے وقف کر دیا اور یوں اس بے باک اخبار کے پہلے دور کا اختتام ہوا۔ اس دور میں یہ جریدہ وقت کے جبر اور حالات کی سنگینی سے جس طرح نبرد آزما رہا اس کی کہانی اس کی پرانی جلدوں کے بوسیدہ کاغذوں اور چنیوٹ کے بڑے بوڑھوں کے دلوں میں ہمیشہ تازہ رہے گی ۔ یہ جلدیں اور یہ روداد عمر حیات لائبریری چنیوٹ میں بڑے اہتمام کے ساتھ محفوظ کی گئی ہیں۔ اس امید میں کہ شاید ان تحریروں کی مہک سے کسی نوجوان صحافی کا گلشن شوق معطر ہو جائے۔
دور ثانی ۔ قیام پاکستان کے بعد:
یاد خدا اور ڈاکٹر عزیز علی کے سفر کے دوسرے دور کا آغاز قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء سے ہوتا ہے جب اسے احتسابی و تقیدی اخبار کی بجائے خالص مذہبی اور ادبی ماہوار رسالے کی صورت دی گئی۔ لیکن اس تبدیلی کے بعد یہ جریدہ اپنا روایتی بانمکین اور بے ساختگی برقرار نہ رکھ سکا۔ معاشی مسائل اور جاگیردارانہ سیاست کے داؤ بیچ ڈاکٹر عزیز علی اور اس اخبار کے لئے زہر قاتل ثابت ہوئے۔ قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں کی راہنمائی اور ترجمانی کی جو ذمہ داری اس اخبار نے اپنے ذمہ لی تھی اسے سرانجام دینے کے بعد شاید کوئی منزل ہی باقی نہ تھی جس کی جست جو ڈاکٹر عزیز علی کو بے چین رکھتی۔ یہ المیہ صرف یاد خدا کا ہی مقدر نہیں بناہل کہ برصغیر کے اور بھی بہت سے اخبار اور رسائل ایسے ہیں جو نامساعد حالات میں ہی کام یابی سے ہمکنار ہوئے لیکن جب حالات کی سنگینی باقی نہ رہی تو ان کی شان بھی رفتہ رفتہ گہنانا شروع ہوگئی۔
تحریک پاکستان میں لازوال کردار ادا کرنے کے بعد پرانے بادہ کش لقمہ اجل کا شکار ہونے لگے ۔ شاید یہ عصری تقاضے تھے کہ وقت نے پھر کسی ظفر علی خان یا محمدعلی جوہر کے قلم کی شعلہ فشانیاں نہ دیکھیں۔ کچھ لوگ تاریخ کے کسی نازک موڑ پر قافلہ انسانی کی رہ نمائی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں لیکن جب وقت کی تیز آندھی ان کے حوصلوں کی فصیل میں شگاف ڈالنے لگتی ہے تو وہ یہ ذمہ داری کسی اور کو سونپ کے خود گرد کارواں بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز علی نے مقدور بھر کوشش کی کہ یادخدا کی اشاعت کا سلسلہ منقطع نہ ہو اور حصول پاکستان کے بعد مسلم معاشرہ کی تعمیر نو کے لئے وہ اپنی جد و جہد جاری رکھیں کیونکہ آزادی وطن کے باوجود انگریز اور ہندو سامراج کی جگہ لینے والے تازہ خداؤں سے ان کی جنگ ابھی اختتام کو نہ پہنچی تھی ۔ اس مقصد کے لئے انھوں نے تنقیدی انداز کی بجائے اصلاحی شعار اختیار کیا اور مقام اشاعت بھی چنیوٹ کی بجائے لاہور منتقل کر دیا لیکن یاد خدا پر اس کا پہلے والا شباب لوٹ کر واپس نہ آسکا اور دس سال تک ضلع جھنگ کے ادبی اور صحافتی حلقوں میں تہلکہ مچانے کے بعد یہ جریدہ وقت کی خاموش لہروں کی نذر ہو کر ماضی کی ایک خوب صورت یاد میں ڈھل گیا۔
1950ء میں ڈاکٹر عزیز علی نے ایک اور رسالے ہفت روزہ نقاد کا اجراء کیا جس میں قیام پاکستان سے قبل کے یاد خدا کی جھلک موجود تھی اس رسالہ کے آغاز کے وقت اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر عزیز علی کہتے ہیں:
اللہ تبارک و تعالیٰ اور قدیر و کار ساز کی عطا کردہ توفیق اور قوت ایمان کے ما تحت ہم ہفت روزہ نقاد کا اجرا عمل میں لا کر اس کا شمارہ اول ہدیہ قارئین کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کر دینا چاہتے ہیں کہ ہفت روزہ نقاد در اصل ہفتہ وار یاد خدا کا جو 1948ء سے ایک مفت روزہ تنقیدی اخبار کی بجائے خالص مذہبی اور ادبی ماہوار رسالہ کی صورت میں منتقل کیا جا چکا ہے بدل ہے اور اس کی پالیسی وہی ہو گئی جو ہفتہ وار یا دخدا کی تھی ۔ دوسرے الفاظ میں ہفت روزہ نقاد ہفت روزہ یاد خدا کی طرح جہاں مجموعی طور پر ملک و قوم کی سلامتی و خوش حالی ترقی برتری سے متعلقہ تجاویز اور خیالات کو شائع کرے گا وہاں اپنے ضلع اور شہر کی پسماندگی اور ابتری کو دور کرنے کی خاص تجاویز اور خیالات کی نشر و اشاعت بھی اس کا اولین فرض ہوگا۔ دیانتداری کے ساتھ تنقید کر کے حالات کو درست کرنے اور ایسے ماحول کو پیدا کرنے کی جد و جہد اس کے لئے لازمی ہوگی جس سے عوام کی فلاح و بہبود اور خواص کی ترقی و برتری ممکن ہو اور ظالم کو سزا ملے اور مظلوم کی دادرسی ہو ۔ علاوہ ازیں وہ حتی الامکان چنیوٹ اور جھنگ کے دور افتادہ اصحاب کو اپنے شہر اور ضلع کے اہم اور خاص حالات اور واقعات سے باخبر رکھنے کی کوشش بھی کرے گا۔ الغرض ہفت روزہ نقادان تمام امور اور فرائض کو سرانجام دے گا جو ہفتہ وار یا دخدا قیام پاکستان سے قبل دیا کرتا تھا۔ ہمیں اس امر کا یقین ہے کہ ہفت روزہ ”نقاد کی ہر اشاعت سے عوام وخواص اسی طرح محظوظ و مستفید ہوا کریں گے جیسا کہ وہ ہفتہ وار یا دخدا سے ہوا کرتے تھے“۔
لیکن نقاد نامی یہ رسالہ نقشِ اول کا متبادل ثابت نہ ہو سکا۔ دراصل زمانے کی وہ اقدار ہی باقی نہ رہی تھیں جو ڈاکٹر عزیز علی اور ان کے رفقاء کا اصل سرمایہ تھیں ۔ وقت کے پیڑ پر کھلنے والے شگوفوں سے پرانی وضع کے یہ لوگ مانوس نہ ہو سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد نقاد کی اشاعت کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ لیکن اپنی مختصری زندگی کے دوران اس رسالے نے بھی صدائے حق کے پھریرے بلند کئے رکھے اور علاقے کے جاگیرداروں کی سیاسی شعبدہ بازیوں کا خوب پول کھولا۔ نقاد کی بندش کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب صحافت سے دامن نہ چھڑا سکے۔ یاد خدا کی یادیں انھیں بے چین کر دیتیں اور ان کے اندر چھپا ہوا بافی اپنی آزادانہ سوچ کے اظہار کے لئے تڑپ اٹھتا۔ بالآخر ایک روز یہ کسک پھر سے رنگ لائی اور یاد خدا کا دوبارہ اجراء کیا گیا۔ کچھ عرصہ یہ ماہنامہ رہا پھر ہفت روزہ بنادیا گیا اور میں سال قبل کے یاد خدا میں جھلکتے ہوئے انداز اور تیور عود کر آئے ۔ اسے ماہنامہ سے ہفت روزہ میں تبدیل کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں۔
اگر چہ ہم ملکی اور مقامی حالات کے پیش نظر اوائل 1956ء سے ہی یہ عزم صمیم رکھتے تھے کہ ہم یاد خدا کو ماہنامہ رسالہ کی بجائے ہفت روزہ اخبار کے طور پر شائع کریں اور اس کے ذریعہ عوام اور مظلوم طبقہ کی ترجمانی کا حق اسی طرح ادا کیا کریں جیسا کہ ہم قیام پاکستان سے قبل کیا کرتے تھے مگر افسوس کہ ہم اس ارادہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اب تک بعض قانونی رکاوٹوں اور ذاتی مصروفیات کی وجہ سے قاصر رہے ہیں۔ اب بفضل تعالیٰ ہماری دلی مراد بر آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یاد خدا کا یہ شمارہ ماہنامہ کی بجائے ہفت روزہ اخبار کی صورت میں ہدیہ قارئین کر رہے ہیں ۔ ہم نے 1937ء میں اجرائے یا دخدا سے اب تک ملک وملت کی صحیح ادبی اور علمی خدمات سرانجام دی ہیں۔ ہم یہ فخر سے بیان کر سکتے ہیں کہ باوجود یکہ مادی دنیا کی کئی پر فریب آندھیاں ہمارے عزائم سے متصادم ہوئیں لیکن ہم متزلزل نہ ہوئے اور یاد خدا کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک رکھتے ہوئے صحیح مذہبی اور ادبی خدمت کو ہی اپنا شعار بنائے رکھا اور ہمیشہ حق گوئی کو اپنا نصب العین سمجھتے ہوئے عوام کے دکھ درد اور مصائب و مشکلات کو دور کرنے کے لئے باطل کی بڑی سے بڑی طاقت کے رعب و داب سے ٹکرائے۔ حتی کہ رو پہلی جھنکار بھی ہمیں اپنے دام ہم رنگ زمین میں نہ پھنسا سکی اور اپنا مسلک یعنی غریبوں اور بیکسوں کی امداد و اعانت نہ چھوڑا جس کی پاداش میں ہم نے بڑے بڑے ظلم و تشدد ہے مگراف نہ کی اور اپنی منزل کی طرف جادہ بیمار ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس خوش فہمی نے کہ اب غیر قوم کے چلے جانے سے عوام کی ترجمانی کی چنداں ضرورت نہیں رہی اور قوم آزاد قوموں کی طرح زندگی بسر کرے گی، ہفتہ وار یا خدا کو ماہنامہ کی شکل دے دی مگر حکمران طبقہ اور عمال حکومت کے رویہ نے ہماری اس خوش فہمی کو غلط فہمی میں بول دیا۔ ہم اللہ تعالی کے الطاف واکرام پتو قع اور یقین کرتے ہوئے ان پر یہ ثابت کر دیں گے کہ ادارہ یا د خدا اب بھی اسی طرح حق و صداقت اور عدل و انصاف کی حمایت اور کذب و اختراع اور ظلم و نا انصافی کی مخالفت میں کمر بستہ ہے جیسا کہ وہ قیام پاکستان سے قبل تھا“۔
لیکن حق و صداقت اور عدل و انصاف کی حمایت اور کذب و اختراع اور ظلم و نا انصافی کی مخالفت کی خواہش اس بارڈاکٹر صاحب کے سینہ میں ہی گھٹ کے رہ گئی ۔ ڈاکٹر صاحب کے شریک سفر ان سے کنارہ کر چکے تھے ۔ مقامی سیاست کی پیچیدگیوں میں الجھ کر یہ رسالہ اپنا آزادانہ تشخص بھی گنوا بیٹھا اور ڈاکٹر صاحب کی شخصیت متنازعہ ہونے لگی ۔ ان پر خود پسندی مفاد پرستی یہاں تک کہ بلیک میلنگ کے الزام عائد ہونے لگے ۔ جب تک ڈاکٹر صاحب معاشرہ کی اصلاح اور تعمیر میں مگن رہے کوئی طاقت انھیں زک پہنچانے میں کام یاب نہ ہو سکی لیکن جب وہ سیاست کے خارزار میں اترنے لگے تو حریفوں نے ان کی قوت کا اندازہ کرتے ہوئے ابتدا میں ہی اس طرح اسیر یا کہ وہ اس میدان میں اپنے جوہر نہ دکھا سکے۔
اختام:
چنیوٹ کی سیاست عمومی طور پر جاگیردارانہ تسلط اور مکر و فریب سے عبارت ہے۔ ایک طویل غلامی اور سامراجی غلبے کے نتیجے میں چنیوٹ کے پس ماندہ عوام کو کبھی بھی اپنی اصل منزل کا شعور نہ ہو سکا۔ اس علاقے کے بڑے زمیندار جو یہاں کی دیہاتی آبادی پر مسلط ہیں زیادہ تر انگریز کے وفادار اور حاشیہ نشین ہونے کی حیثیت سے اس مقام پر پہنچے۔ ان کا مقصد محنت کشوں کے استحصال اور لوٹ کھسوٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان کی حویلیوں میں روشن چراغ ، غریب کسانوں کی امنگوں اور حسرتوں سے جلا پاتے تھے۔ ہ لوگ کوئی ایسی آواز پسند نہ کرتے تھے جو جبر پرمبنی اس نظام کو بدلنے کی تڑپ رکھتی ہو۔ اس استحصالی گرفت نے کتنی ہی طاقتور صداؤں کا گلا گھوٹنا ہے۔ ڈاکٹرعزیز علی کی نحیف وناتواں آواز بھی اس جبر مسلسل کی تاب نہ لاسکی اور ان کے دامن میں حسرتوں کا ڈھیر لگ گیا۔ اس ناکامی نے یاد خدا پر بھی اثرات مرتب کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چنیوٹ میں گلشن صحافت کا یہ تناور درخت وقت کی تیز آندھی کے حضور سرنگوں ہو گیا۔
یاد خدا کے سلسلہ اشاعت سے دستکش ہو کر ڈاکٹر عزیز علی نے یہ نشان تو بظاہر مٹا دیا لیکن اپنی جرات و بے باکی کا جو نقش وہ چنیوٹ کی تاریخ پر ثبت کر گئے اس کو مٹانا ممکن نہیں۔ وقت ہر شے کے لئے زوال کا پیامبر بن کے آتا ہے لیکن حروف کی تابندگی اور توانائی چھینا وقت کے اختیار میں نہیں ۔ چنیوٹ کے دامن میں کھلنے والی ہزاروں کو نپلیں اور بہاریں رخصت ہو گئیں لیکن یاد خدا کے حروف جھومر بن کر وقت کی پیشانی پہ آج بھی آویزاں ہیں۔
روح عصر:
یاد خدا کس نوعیت کا اخبار تھا۔ ملکی یا علاقائی صحافت میں اس کا کوئی مقام ہے یا نہیں۔ اس نے مروجہ صحافت کے اصولوں کی کس حد تک پاسداری کی فکری اور تخلیقی سطح پر لوگوں کی رہ نمائی کا فرض کہاں تک ادا ہوا۔ اس کی اشاعت کتنی تھی۔ اس کا دائرہ اختیار کس حد تک وسیع تھا۔ اس کے موضوعات کیا تھے۔ اداریوں اور مضامین کے پس پردہ کیا عوامل کارفرما ہوتے ۔ خبروں کے انتخاب ان کی تفصیل اور حقیقت بیانی میں کس حد تک توازن رہتا۔ مجلس ادارت کے افراد اور نامہ نگار کون لوگ تھے ۔ ان کے پہنی و فکری معیار اور سماجی پس منظر سے یہ اخبار کیونکر متاثر ہوا۔ ایک اخبار اور جریدے کے مختلف النوع تقاضوں کو اس نے کس طرح ہم آہنگ کیا۔ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب صحافت کا کوئی طالب علم ہی دے سکتا ہے۔ تاہم دس سال کے طویل عرصہ میں اس اخبار نے جن خیالات اور افکار کو الفاظ کا جامہ پہنایا ان کا جائزہ صحافت کے حوالہ سے ہی نہیں بل کہ سماجی اور معاشرتی نکتہ نگاہ سے بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔
ہندوستان میں جب اردو صحافت کے پھول کھلنا شروع ہوئے تو موسم نا مہربان اور ماحول ناسازگار تھا۔ لیکن مشکلات کی اس باد سموم کے باوجود بہت جلد ان پھولوں پہ بہار آنا شروع ہوگئی۔
صحافت کی ابتدائی خو غلامانہ ذہنیت سے عبارت تھی لیکن انیسویں صدی کے ڈھلتے ہی اس میں تغیر رونما ہونے لگا۔ خوشامد ستایش اور سرکاری حکمت عملی کی حمایت آہستہ آہستہ اختلاف تنقید اور بغاوت میں ڈھل گئی اور اہل قلم مٹی کی محبت کا دائمی قرض ادا کرنے لگے۔ اپنی ابتدا میں اس غلامانہ روش کے علاوہ صحافت پر ادب اور زبان کے فنی اظہار کا غلبہ بھی تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں کچھ اخبارات اور جرائد نے اردو صحافت کو ادب کی اس خوب صورت زنجیر سے رہائی دلانے کی کوشش بھی کی لیکن بعد ازاں ابوالکلام آزاد ظفر علی خان حسرت موہانی اور محمد علی جو ہر جیسی ہستیوں کی بدولت مسلم صحافت میں ادیبانہ رنگ کے ساتھ ساتھ خطیبانہ انداز بھی عود کر آیا جس سے صحافت کو ایک نیا آہنگ نصیب ہوا ۔ جوش اور ولولہ ان عہد ساز شخصیات کی تحریروں کا نمایاں عصر ہوتا تھا اور عصری تقاضوں کے پیش نظر مصلحت اندیشی اور نرم گفتاری کی ان کے ہاں کوئی گنجائش نہ تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ اس انداز میں بھی نئے رجحانات شامل ہونے لگے ۔ اخبارات کی اشاعت میں اضافہ ہونے سے موضوعات میں تنوع پیدا ہوا اور سیاسی بیداری اور معاشی مسائل کی بناء پر الفاظ کی قطع و برید کی بجائے نفس مضمون پر زور دیا جانے لگا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد غلامی سے بے زاری نے نفرت کی صورت اختیار کی تو صحافیانہ تیوروں میں پھر تبدیلی رونما ہوئی۔ سیاسی اور معاشرتی زندگی میں نئے نقوش ابھرے اور ادب میں کئی طرح کی تحریکیں اٹھنا شروع ہوئیں ۔ 1935ء کے لگ بھگ نہ صرف اردو ادب میں زندگی کی حقیقتوں کو جگہ ملنے لگی بل کہ ان حقائق کا عکس صحافت میں بھی نظر آنے لگا۔ ایک طویل عرصہ ساتھ ساتھ رہنے کے بعد صحافت اور ادب اس مقام پر آن پہنچے جہاں سے ان کی راہیں جدا ہوتی تھیں ۔ اخباروں میں ایک عرصہ سے مروجہ ادبی رنگ صحافیانہ اسلوب میں ڈھلنے لگا۔ صحافت نے روز مرہ کے واقعات کی ترجمانی کا فریضہ اختیار کر لیا اور اخبار روح عصر کے نمائندہ بن گئے ۔ یاد خدا پر بھی اپنے عہد کے انھیں رجحانات اور میلانات کی چھاپ نظر آتی ہے۔ اس نے معاشرے میں موجود ہر طرح کے سیاسی، سماجی، معاشرتی، ثقافتی، دینی ادبی علمی اور معاشی مسائل اور امور کی عکاسی کر کے صحافیانہ روایات کی پاسداری کا حق ادا کیا ہے۔ مقامی اور اہم بین الاقوامی خبروں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ملکی امور پر اداریوں اور مضامین کے توسط سے رائے عامہ کوقومی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا۔ شہری مسائل پر سنجیدگی سے غور و فکر کی طرح ڈالی اور ذہنی و فکری صلاحیتوں کی جلا کے لئے علمی وادبی شہ پارے شامل اشاعت کئے۔
1937ء میں یاد خدا کی ابتدا ایک مذہبی رسالے کے طور پر ہوئی ۔ یہ دراصل ایک باغی کا رد عمل تھا جس کی تلاش حق کی جست جو کو تعصب اور کم نگاہی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ لیکن رفتہ رفتہ اس رسالے کا افق وسیع ہوتا گیا اور اس میں مذہبی اور اخلاقی مضامین کے علاوہ بھی بہت کچھ شائع ہونے لگا۔ یاد خدا کے سرگودھا سے چنیوٹ منتقل ہوتے ہی اس میں ملکی سیاست سے لے کر مقامی معاشرتی مسائل تک کا تذکرہ نظر آتا ہے۔ اگر صحافت واقعتا معاشرے کی عکاسی کرتی ہے تو یاد خدا نے یہ فریضہ نہایت تندہی سے سرانجام دیا۔ بل کہ کہیں کہیں تو یہ اس آفاقی کسک سے بھی سرشار نظر آتا ہے جو اپنے سماجی تانے بانے سے آزاد ہو کر ساری نوع انسانی کے دکھ درد اور رنج وغم کا احاطہ کرتی ہے۔
یاد خدا کے قلم کار اور مجلس ادارت کے اراکین نچلے اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان افراد کو اپنے عہد کی سیاسی اور طبقاتی کش مکش کے صحیح اور اک کے ساتھ ساتھ مروجہ سماجی اقدار کا بھی کامل شعور حاصل تھا۔ ان کی نگارشات یا د خدا کے اداریے اور دیگر سنجیدہ مضامین جمع کیے جائیں تو آج سے نصف صدی پہلے کی سیاسی اور سماجی تصویر نظر آنے لگتی ہے جہاں بظاہر ایک پر سکون نظر آنے والے معاشرہ کے بطن میں کئی ایک طوفان مچل رہے تھے۔ نصف صدی کوئی اتناطویل عرصہ نہیں لیکن اس دوران انسان نے ترقی کی جتنی منازل طے کی ہیں اس اعتبار سے پچاس سال پہلے کا چنیوٹ بھی بہت دور کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ بل کہ آج تو وہ سارا عہد ہی اجنبی اجنبی لگتا ہے۔ ابلاغ عامہ کی جدید سہولتوں کی عدم دستیابی رسل در سائل اور مواصلات کے محدود ذرائع حصول علم کے مواقعوں کا فقدان اور پھر کہنہ مشق قلم کاروں اور ادیبوں کی کمی اور سب سے بڑھ کر مالی وسائل کی تنگ دامنی لیکن ان سب مشکلات کے باوجود یا خدا کا کردار متاثر کن ہے۔ بل کہ ایک چھوٹے سے شہر کے پس منظر میں تو یہ ایک قابل رشک کوشش تھی جو اس دور کے مخصوص سیاسی اور سماجی حالات کی گود میں پروان چڑھی اور جسے ایک شخص کی دھن اور جنون نے مقامی تاریخ کا حصہ بنا دیا۔
چنیوٹ کی آبادی اور وسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ دولت کی ریل پیل کے ساتھ ساتھ تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا ۔ آزادی کے بعد اس شہر نے ملکی معیشت میں ایک منفرد مقام بھی حاصل کر لیا۔ لیکن اس تمام ترقی اور جدید سہولتوں کی دستیابی کے باوجود یہاں سے نکلنے والے اخبار اور رسائل ابھی اس معیار سے بہت پیچھے ہیں جو نصف صدی قبل یا د خدا نے متعین کیا تھا یا کرنا چاہا تھا۔ تحریروں کے ادبی معیار کے ذکر پہ کیا موقوف موجودہ جرائد کی ظاہری صورت بھی ابھی اس مقام سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ شائد مادی اور معاشی ترقی کے ساتھ اس شہر نے ذہنی اور فکری ارتقاء کی منازل طے نہیں کیں یا اس دور کے ادیب اور صحافی قلم کی حرمت کے زیادہ پاسدار تھے اور صحافت مقصدِ حیات بن کر ان کے گوشئہ دل میں آباد رہتی تھی۔ اس میں تو کچھ شائبہ نہیں کہ ان لوگوں کا ہاتھ اپنے عہد کی نبض پر تھا اور وہ اپنے اردگرد بھرے ہوئے مسائل سے واقفیت کے علاوہ وقت کی رگوں میں گردش کرتے ہوئے رجحانات سے آگاہ رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یاد خدا کے مضامین میں نصف صدی پہلے کا چنیوٹ دھڑکتا ہوا نظر آتا ہے اور بین السطور میں پوشیدہ عصری شعور جھنجھوڑ نے لگتا ہے۔
چنیوٹ میں چھائے روحانی انجماد اور فکری سرد مہری کے عالم میں یاد خدا کسی شعلہ جوالا کی طرح ابھرا تھا۔ شہری سطح پر پیش آنے والا ہرا ہم واقعہ لوگوں کے باہمی دکھ درد اور خوشیاں، قومی امور کی مقامی نکتہ نگاہ سے توضیع ، ہندو مسلم تعلقات کی سیاسی اور سماجی نوعیت، مسلمانوں کے دلوں میں تعلیمی ترقی کی بہر جہیز کی خامیاں تعلیم نسواں کی اہمیت، جنگ عظیم اور اہل ہندوستان کا کردار مقامی عمال کی چیرہ دستیاں نو آبادیاتی نظام کے غیر انسانی ہتھکنڈے طبقاتی کش مکش ، بلدیہ کی نا اہلی، صحت عامہ کے مسائل، گلیوں، نالیوں کی زبوں حالی علماء اور عمائدین کی کم نگاہی، مجلس احرار کی سرگرمیاں، مسلم لیگ کی جدو جہد انجمن اسلامیہ چنیوٹ کے عزائم الیکشنوں کا غلغلہ اور مسلم زعماء کی باہمی چپقلش سے لے کر علم وٹن ہنر آرٹ ادب اور اخلاق غرضیکہ زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو یاد خدا کے کالموں میں نظر نہ آتا ہو ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ لگی لپٹی رکھے بغیر ڈنکے کی چوٹ پر کہا جاتا تھا ۔ حقیقت کو مصلحت اور خوشامد کا جامہ پہنائے بغیر پیش کرنے کے لئے جس جرات کی ضرورت ہے وہ یاد خدا کی مجلس ادارت کے ہر رکن میں موجود تھی ۔
یاد خدا کو منہ پھٹ اخبار لچر نو مسلم چیتھڑا اور ڈاکٹر عزیز علی کو غلیظ علی نومسلم بکواسی لال بجھکو مخبوط الحواس باطل پرست اور بدلگام جیسے القاب سے نوازا گیا لیکن اس اخبار نے اپنی راہ سے بھٹکنے کی بجائے اصولوں کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور تعصب کی یلغار کے باوجود انسانی اقدار سے اپنا رشتہ نہ ٹوٹنے دیا۔ یہی اس اخبار کا طرہ امتیاز ہے۔
2.1 موضوعات:
یاد خدا میں چھپنے والے مواد پہ موضوع کی کوئی قید نہ تھی ۔ زندگی کے نشیب وفراز کی طرح اس اخبار کا ہر موضوع اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن ان وسیع موضوعات میں سے چند اہم اور دل چسپ موضوعات کا تذکرہ جنھوں نے اکثر وبیش تر یا دخدا کے صفحات میں جگہ پائی اس اخبار کی حکمت عملی اور تیوروں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اس عہد کے بارے میں ہماری معلومات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ موضوعات کا یہ جائزہ کوئی تنقیدی مطالعہ نہیں بل کہ اس سوچ اور عمل کی تلاش ہے جو ہمارا فکری سرمایہ تھا لیکن ہم نے اسے کہانی سمجھ کے فراموش کر دیا۔ اس کہانی کے بہت سے باب ہیں جو عمل اور جست جو کے کتنے ہی بند راستوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان راستوں کا سفر جہاں یاد خدا کے تخلیقی افق کی نقاب کشائی کرتا ہے وہیں اک نئے جہان کی تخلیق کا پیامبر بھی ہے۔ جہان تازہ کے اس سفر کا آغاز ان مذہبی اور اخلاقی رجحانات کے مطالعہ سے ہوتا ہے جو یاد خدا کی اولین ترجیح تھے۔
2.2 مذہبی واخلاقی رجحانات
شروع شروع میں یاد خدا کا غالب حصہ مذہبی، اصلاحی اور اخلاقی مضامین پر یہ مشتمل ہوتا تھا۔ اس کے ابتدائی شماروں میں اس رسالے کی غرض وغایت اور مقاصد کی توضیع کرتے ہوئے ڈاکٹر عزیز علی رقم
طراز ہیں:
اس میں شک نہیں کہ آج کل کے زمانہ میں یاد خدا کا جاری کرنا تجارتی مفاد کے لئے ضرر رساں ہے۔ تمام لوگوں کا رجحان بجائے خدا پرستی کے مادہ پرستی اور بجائے عبادت و ریاضت کے عیش و عشرت کی طرف ہے اور لوگ روحانی مضامین اور مذہبی لٹریچر پڑھنے کی بجائے عشقیہ اور حیا سوز افسانے اور بے ہودہ ناول وغیرہ پڑھنے کے عادی ہو چکے ہیں اور ایسے رسائل کو ہرگز پسند نہیں کرتے جوان کے لئے تازیانہ عبرت ہوں۔ ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں جو ایسے رسائل کو پسند کرتے ہیں جن میں خدا کی عظمت و جلالت کا بیان ہو اور بندگان خدا کے نصیحت آموز کارناموں کا ذکر ہو اور ایسے مضامین ہوں جو خواہشات نفسانی کو پامال کر کے اطاعت الہی کی طرف راغب کریں۔ میں ان تمام امور کو جانتا ہوں مگر مجھے اس کی کچھ پر اوہ نہیں۔ میری نظروں میں حق پرستی انسانی زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد ہے اور مجھے کیا سارے لوگوں کو خدا پرست ہی بنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیں اس امر کا فخر ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ کئی ایک جرائد حشرات الارض کی طرح شائع ہو کر اخلاق کو بلند کرنے کی بجائے فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کے مرتکب ہو رہے ہیں یاد خدا بلاشبہ ایک ایسا جریدہ ہے جو اپنی ہر اشاعت میں انسانیت اور اخلاق کا احساس دلاتا ہے۔ یاد خدا ” مقاصد اور مضامین کے لحاظ سے اسم با کی ہے اور اس کے تمام تر مضامین بنی نوع انسان کے لئے رشد و ہدایت کا مخزن ہیں اور ان کے مطالعہ سے ہر مذہب وملت کا شخص مستفید ہو سکتا ہے۔ یاد خدا کی غرض وغایت فقط
(الف): خالق کائنات رازق مخلوقات مالک موجودات کی یاد دلاتے ہوئے انسان کو با اخلاق بنانے کے لئے
(ب): انسان کو فرائض انسانیت ادا کرنے یعنی نفس امارہ کی اصلاح اور روحانی ترقی ( قرب الہی حاصل کرنے کی ترغیب کے لئے
(ج): انسان کے دل سے نفرت و کدور کا پودا اکھیڑ کر محبت والفت کا شجر لگانے کے لئے انسان کو راحت اور خوشی سے زندگی بسر کرنے کا راز بتانے کے لئے. احکامِ ربانی ارشادات نبوی گمذہبی روایات اور خدا رسیدہ بزرگوں ولیوں، رشیون درویشوں صوفیوں اور مہاتماؤں کے حالات زندگی، پند و نصائح را از تصوف اور مضامین اخلاقی، مذہبی معاشرتی اور طبی شائع کرنا ہے۔
یا دخدا کے تمام شماروں میں مندرجہ بالا مقاصد اور نصب العین کی بھر پور عکاسی نظر آتی ہے۔ مذہب اور اخلاقیات کی طرف یہ میلان شماره اول سے لے کر حرف آخر تک برقرار رہا۔ لیکن وقت کے ساتھ اس کے تناسب میں کمی بیشی ہوتی رہی۔ اصلاحی اور اخلاقی مضامین کے علاوہ قرآنی موضوعات پر جید علماء کے مضامین التزام کے ساتھ شامل کئے جاتے تھے ۔ یہ مضامین فرقہ واریت اور تعصب کے زہر سے مبرا ہوتے تھے اور ان میں امت مسلمہ کی اجتماعی بہتری پیش نظر رہتی تھی ۔ ان تحریروں سے تنگ نظری اور پڑ مردگی کی بجائے قلب میں انکشاف اور روح میں طمانیت کا سرور پیدا ہوتا ہے۔ مسلم تہواروں کے موقعہ پر خصوصی مقالے شائع ہوتے جن میں اتحاد بین المسلمین کے پر چار کے علاوہ فروعی اختلافات پس پشت ڈالنے کی ترغیب دلائی جاتی۔ یاد خدا نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے کے لئے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا۔ شیعہ سنی اختلافات کے ضمن میں اس جریدے کی طرف سے مصالحانہ کردار ادا کرنے کی مقدور بھر کوشش نظر آتی ہے۔ ان دنوں چنیوٹ میں شیعہ سنی مخاصمت کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا لیکن ضلع کے دیگر علاقوں سے کبھی باہمی چپقلش کی خبر آتی تو فوری رد عمل اور سدِ باب کے طور پر یاد خدا کی جانب سے اتحاد اور یک جہتی کا نعرہ بلند ہوتا۔ جھنگ میں ایک بار مسلمانوں کی باہمی چپقلش سنگین صورت اختیار کرنے گی تو زعمائے قوم کو تشویش لاحق ہوئی ۔
یاد خدا میں ان اختلافات پر اس طرح اظہار خیال کیا گیا: اس وقت نہ صرف ہندوستان بل کہ مشرق و مغرب کی ساری دنیا اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے اور ہر کہیں ایک عالمگیر جنگ کی آگ پھیل رہی ہے۔ مکھیانہ (جھنگ) کے مسلمان اپنی خانہ جنگیوں میں مصروف ہیں۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر اس ایک شہر میں آٹھ جگہ پر نماز عید ادا ہوئی۔ خود عید گاہ کے اندر دو بار نماز عید ہوئی ۔ خدا جانے کون سے گروہ کی نماز قبول ہوئی ہوگی ۔ دلوں میں کدورتوں کے ساتھ اور زبانوں پہ شکایتیں لئے ہوئے مسلمانوں نے یہ مقدس دن گزارا ۔ موجودہ وقت میں مسلمانوں کی یہ خانہ جنگیاں افسوس ناک ہیں۔ ہم ہر اس شخص سے جس کے سینے میں ذرا بھی حرارت ایمان ہے اور جس کے دل میں خلق رسول کا کچھ بھی پاس ہے درخواست کریں گے کہ وہ اٹھے اور مسلمانوں کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو جمع کرے کہ اس
میں مسلمانوں کی بہتری ہے اور اسی میں مسلمانوں کی عزت ہے۔
یاد خدا کی تحریروں کا ایک اہم پہلو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور عقیدت کا اظہار تھا۔ ان میں سیرت پاک کے حوالے سے اصلاح معاشرہ کی خصوصی لگن نظر آتی ہے۔ شاید یہ ایک نو مسلم کی اسلامی چشمه حیات سے پیوستگی کی خواہش تھی۔ یاد خدا کے اکثر شمارے نعت رسول مقبول سے مزین ہوتے۔ یہاں تک کہ بعض ہندو شعراء کا تحریر کردہ نعتیہ کلام بھی شامل کیا جاتا۔ ان مدح خوان رسول میں چرخ چنیوٹی کا نام سر فہرست ہے:
نعت پڑھتا جب کبھی بھی بزم میں آتا ہوں میں
روح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں
(چرخ چنیوٹی)
ادارہ یاد خدا کی جانب سے عقیدت کے چند پھول“ کے نام سے ہندو شعراء کے نعتیہ کلام کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوا ۔ ہندو مسلم اختلافات کے باوجود سرور کائنات سے غیر مسلموں کی یہ عقیدت شہر کی تہذیبی ہم آہنگی کی نشاندہی کرتی ہے۔ فلسفہء حیات کے نا قابل عبور فاصلوں کے باوجود کچھ روزن کھلے تھے جہاں سے روشنی اور تازہ ہوا کے جھونکے در آتے ۔ یاد خدا کے اوراق بتاتے ہیں کہ مسلم تہواروں کے ایام میں سارا شہر ایک اکائی میں ڈھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرتا تھا۔ ایشر داس چرخ چنیوٹی کے یہ مطبوعہ اشعارای احساس کے غماز ہیں:
عید احساس محبت کے لئے آئی ہے
جذبہ شوق کو بیدار کیئے آئی ہے
امتحاں اللہ کی جانب سے جو تھا ختم ہوا
اہل ایماں کا غرض عہد وفا ختم ہوا
آج ہر شے پہ نظر آتی ہے کچھ اور بہار
عید پر دل بھی فدا عید پہ جاں تک بھی نثار
ڈاکٹر عزیز علی کی رسول اکرم سے عقیدت اور محبت کا سلسلہ دراز ہوا تو اہل بیعت کے در نیاز تک جا پہنچا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی اور ان کی شہادت کے پس منظر میں کئی ایک فکر انگیز تحریر یں باد خدا کے صفحات میں بکھری ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر عزیز علی بعد میں اسماعیلیہ جماعت سے وابستہ ہو گئے اور سرآغا خان کی شخصیت اور تعلیمات کو یادِ خدا میں نمایاں جگہ ملی۔
یا دخدا میں مذہبی رجحانات کے باوجود انتہا پسندی کا شائبہ نظر نہیں آتا ۔ صوفیانہ مسلک کے پیش نظر صلح کل کا نعرہ مستانہ ہی اس کا اصل پیغام تھا۔ یادِ خدا نے جہاں علمائے حق کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کیے وہیں علمائے سو کی کم نبی کا پردہ بھی چاک کیا۔ 1941ء میں جھنگ (مگھیانہ) کی ایک مسجد میں امامت کے مسئلہ پر دو دعویداران امامت اور ان کے حواریوں کے درمیان عین صحن مسجد میں ہاتھا پائی کا ایک شرم ناک واقعہ رونما ہوا جس پر ہر صاحب دل مسلمان کا سر شرم سے جھک گیا۔ اس واقعے پر جس طرح یاد خدا میں اظہار خیال کیا گیا وہ مثبت طرز فکر اور اچھے اصولوں کی زندہ مثال ہے۔ ادارہ کی جانب سے اس مذموم فعل پر داستاں آرائی اور کسی ایک فریق کی طرفداری کی بجائے اصلاح احوال کی جانب توجہ مبذول کروائی گئی ۔ 31 اکتوبر 1941ء کی اشاعت میں مرقوم ہے:
اس واقعہ کی یاد دردمند دل رکھنے والے مسلمانوں کو ہمیشہ خون کے آنسو رلاتی رہے گی۔ اس واقعہ کی تفصیلات سے اجتناب اور وجوہات سے اغماض ہی بہتر ہے لیکن نفس واقعہ کی شرم ناک نوعیت ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ ذیل کے اشعار اس واقعہ سے متاثر ہو کو خلوص اور غیر جانبداری کے ساتھ کہے گئے ہیں۔
نصف صدی قبل جاگیر دارانہ نظام کی قباحتیں مسلم معاشرہ کی ترقی کی راہ میں کوہ گراں کی طرح حائل ا۔ اس نظام کے خلاف جہاں ایک ہندو نو مسلم نے آواز بلند کی وہیں ضلع جھنگ کے دامن میں ایک اور شمع بھی روشن ہوئی۔ اس شمع کی لونے دین حق کو گھیرے ہوئے اندھیروں کا پردہ چاک کیا اور دریائے چناب کے کنارے آبا دلوگوں کا رشتہ علم اور سچائی سے منسلک کر کے انھیں وڈیروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ بخشا۔ بھوانہ ” کی بنجر و بے آباد سرزمین سے اٹھنے والی اس آواز کا نام جامعہ محمدی شریف تھا
چنیوٹ سے تقریبا پندرہ میل کے فاصلہ پر دریائے چناب کے کنارے ایک چھوٹا سا قصبہ۔
اور اس کے روح رواں مشہور عالم دین اور درویش مولانا محمد ذاکر تھے جن کی ذات بابرکات نے علم و آگہی سے لے کر سیاست کی دشوار گزار وادیوں تک یہاں کے لوگوں کی رہ نمائی فرمائی۔ مولانا محمد ذاکر نے اپنی کئی تحریروں میں یاد خدا کے مسلک کی حمایت کی اور ڈاکٹر عزیز علی کو ہدیہ تبریک پیش کیا۔ جامعہ محمدی شریف محض دینی مدرسہ نہیں بل کہ ایک تحریک کا نام تھا جس نے احیائے دین اور ترویج علم کے لئے ناقابل فراموش جد و جہد کی۔ یاد خدا میں اس ادارے کے پیغام کو نمایاں جگہ ملی اور اس کے کئی ایک شماروں میں اس کی خدمات کو سراہا گیا۔ مولانا ظفر علی خان نے جب بنفس نفیس چنیوٹ پہنچ کر اس ادارہ کے زیر انتظام عربی تعلیمی کانفرنس 1940ء کی صدارت فرمائی اور دارالعلوم محمدی شریف کی تعلیمی اور دینی خدمات کا اعتراف کیا تو یاد خدا نے ان کی یہ ظلم صفحہ اول پر شائع کی:
یاد خدا زمانہ کی سختیوں کے طفیل کتنے ہی زیر و بم کا شکار ہوا لیکن اپنے نام کے باوصف ذکر خدا سے دور نہ ہو سکا اور جن مقاصد کا تعین اشاعت اول میں کیا گیا ان کے حصول کی تگ و دو میں مصروف رہا۔ 1948ء میں جب یاد خدا پر پہلی بار اختتام کے سائے منڈلانے لگے تو بھی ڈاکٹر عزیز علی کی قلم
سے یہی آواز بلند ہوئی:
” خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ یاد خدا کا اجراء جنوری 1937ء میں جن اغراض و مقاصد کے ماتحت عمل میں لایا گیا تھا ان میں آج تک کوئی تبدیلی وضع نہیں ہوئی۔ ہم نے اخباری صورت میں بھی یاد خدا کے نام پر دھبہ نہیں آنے دیا اور اس میں ہمیشہ عام خبروں کے علاوہ ایسے مضامین ہی اکثر و بیش تر درج کرتے چلے آرہے ہیں جن کی روشنی میں انسان مادیت اور نفس پرستی کے پھندوں سے آزادی اور روحانیت کے ارتقاء اور خدا پرستی کی منازل تک رسائی حاصل کرنے کا درس لے سکتا ہو۔ ہمیں اس امر کا فخر ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ کئی ایک جرائد حشرات الارض کی طرح شائع ہو کر اخلاق کو بلند کرنے کی بجائے فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کے مرتکب ہو رہے ہیں یاد خدا ” بلاشبہ ایک ایسا جریدہ ہے جو انسان کو انسانیت اور اخلاق کا احساس دلاتا ہے اور اسے یہ پیغام دیتا ہے کہ اس دنیا میں تیری حیثیت مالک کی نہیں بل کہ مملوک کی ہے
خالق کی نہیں بل کہ مخلوق کی ہے رازق کی نہیں بل کہ مرزوق کی ہے۔
گویا روز اول سے لے کر اپنے اختتام تک اس اخبار کی اولین ترجیح فکری اور ذہنی انحطاط کے حامل بھولے بھٹکے لوگوں کو یاد خدا سے ہمکنار کرنا تھا۔ اس جدو جہد میں اسے کس قدر کام یابی نصیب ہوئی اس کا اندازہ بے سود ہے کیونکہ نیکی اور بدی کی کش مکش ہر دور میں سود و زیاں سے بے نیاز ہوتی ہے۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
2.3 تحریک پاکستان:
یاد خدا جب اپنے عروج کی منزلیں طے کر رہا تھا تو تحریک پاکستان ایک فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو چکی تھی۔ ادھر مسلمان جوق در جوق قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت کے زیر سایہ جمع ہورہے تھے ادھر مخالف قوتیں بھی اپنی شیرازہ بندی میں مصروف تھیں۔ آزمائش کے ان لمحات میں یاد خدا نے تحریک پاکستان کا علم اٹھایا اور مقامی و ضلعی کانگریسی یلغار کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر بھی اسلام دشمن قوتوں سے محاذ آرائی کا آغاز کر دیا۔ قائد اعظم اور مسلم لیگ کا پیغام عام کرنے اور مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے یاد خدا کے صفحات مختص ہو گئے ۔ کانگرس کے عزائم اور ہندوؤں کی چیرہ دستیوں کا پردہ فاش ہونے لگا اور ضلع جھنگ کے مسلمانوں کو یاد خدا کی صورت میں ہندو پرو پیگنڈہ کا ایک منہ توڑ جواب میسر آ گیا۔ یاد خدا نے نہ صرف تحریک پاکستان کے اغراض و مقاصد اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا بل کہ تحریک پاکستان کے رہ نماؤں کے متعلق ہندوؤں کی غلط بیانی اور ہرزہ سرائی کا بھی کامل سد باب کر دیا۔ جھنگ سے چھپنے والے ایک معاصر ” جھنگ سیال میں جب قائد اعظم کے بارے میں
نازیبا کلمات رقم ہوئے تو یاد خدا نے فورا اس کا جواب دیا:
جھنگ سیال کی اشاعت میں ہماری نظر سے کانگریسی معاصر کا یہ عنوان بھی گزرا ہے کہ ”مولوی جناح پیغمبر نہیں اور اس ضمن میں معاصر نے اسلامیانِ ہند کے واحد نمائندہ لیڈ محمد علی جناح پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہے۔ پیغمبری کا دعوی نہ مسٹر جناح نے کیا اور نہ ہی مسلمان انھیں ایسا سمجھتے ہیں۔ مسٹر جناح میں بحیثیت انسان ہونے کے کچھ کمزوریاں ہوں گی۔ لیکن جہاں تک ان کی سیاسی رہ نمائی کا تعلق ہے ہم ان کی اصابت رائے اور فراست کو یقین ” جزوی است پیغمبری سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں ہم کا نگری معاصر کی توجہ میرٹھ پولیٹیکل کانفرنس کا طرف منعطف کروانا چاہتے ہیں۔ جس میں آل انڈیا نیشنل کانگرس کے سیکرٹری مسٹر چار یہ کر پلانی نے خطبہ صدرات کے دوران یوں گوہر افشانی کی ۔۔۔۔ گاندھی جی کی تعلیمات کو الہامات خداوندی سمجھنا چاہیے۔ اس لئے گاندھی جی کا درجہ نائب خدا کا درجہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کانگریسی معاصر جھنگ سیال کے ہوتے سوتے کا فر گاندھی کو خدا کا نائب بنا رہے ہیں اور مومن محمد علی جناح کو پیغمبر کا رتبہ دینے پر بھی تیار نہیں۔ حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ پیغمبر ہونے کی صلاحیت اگر کہیں پائی جاسکتی ہے تو وہ صرف مرد مومن ہے ۔ ایک کافر کی حیثیت تو اس زمین شور کی طرح ہے جس میں گل وریحان اور سنبل کبھی نہیں اگتے۔
منٹو پارک لاہور میں قرارد دار پاکستان منظور ہونے کے بعد تو مسلمانوں کی مخالفت میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ان کے جذبہ خود ارادیت کو وطن دشمنی سے تعبیر کیا گیا اور سارا ہندو پریس ہم آواز ہو کر اس تجویز کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا۔ لیکن یاد خدا جیسے جرائد نے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی پس منظر کے حوالے سے مطالبہ پاکستان کی وضاحت کی اور عوام الناس میں پھیلنے والے شکوک اور بددلی کے تدارک کے ساتھ ساتھ نظریاتی پختگی کی بنیاد ڈالی۔ 29 مئی 1940ء کے ادار یہ میں قرار دار لا ہور کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی:
مسلم لیگ کے لاہور والے ریزولیوشن پر ہندو جرائد اور عمائد کی طرف سے ہنگامہ اور بے معنی شور و شعب کی آواز روز بروز کم ہوتی جارہی ہے اور ہندوستان اور انگلستان کے بہتر دماغ سوچ رہے ہیں کہ کس طرح اور کس حد تک اسلامیان ہند کے مطالبہ کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس بارے میں مسٹر جناح کے تازہ ترین بیان نے ساری صورت حال کو سلجھا دیا ہے۔ آپ نے صاف الفاظ میں ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی تدبیر صرف یہی ہے کہ اس کو آزاد ریاستوں میں بانٹ دیا جائے۔ گاندھی جی اور پنڈت راج گوپال اچاریہ نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ لیگ کی سکیم کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کوٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے اور ہندوستانی قومیت کو پاش پاش کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان کی قومیت کا وجود ہی جب نا قابل تسلیم ہے تو پھر اس کے پاش پاش ہو جانے سے کیا مطلب۔ یہ تو صرف انگریز حکومت کے واحد اقتدار کا ہاتھ ہے جو موجودہ صورت میں ہندوستان کو متحد کئے ہوئے ہے ورنہ جغرافیائی، تاریخی اور تمدنی لحاظ سے ہندوستان الگ چیز ہے اور پاکستان بالکل مختلف چیز ۔۔۔۔۔ ہندوستان کے مختلف حصوں کو ایک مرکزی نظام کے ماتحت لانے کا مقصد یہی ہے کہ تمام ہندوستان ایک ہندو اکثریت کے رحم پر آجائے۔
یہی چیز ہے جسے نو کروڑ مسلمانوں کی خود دار قوم، جس کی اپنی علیحدہ تاریخی، مذہبی، ثقافتی اور معاشرتی روایات ہیں کبھی اور کسی صورت میں برداشت نہیں کر سکتی ۔۔۔۔ مسلمان اب بیدار ہو چکا ہے اور قائد اعظم نے مسلمانوں کو ایک نمائندہ جماعت ایک مرکزی پلیٹ فارم اور ایک متحدہ آواز عطا کر دی ہے اور اب لاہور کے اجلاس میں ایک نصب العین بھی سوچ لیا گیا ہے۔ مسلمان کو اگر ہندوستان کی سرزمین میں عزت، خودداری، بے فکری اور آزادی سے جینا ہے تو اس کی یہی صورت ہے کہ مسلم لیگ کے نصب العین کی تحصیل کے لئے ہر مسلمان آمادہ عمل ہو جائے۔ کانگرس اقتدار چاہتی ہے لیکن ایسا اقدار جس میں ہندو اکثریت سفید وسیاہ کی مالک ہو۔ یہ چاہتی ہے کہ گھر کی مالک خود بن جائے اور دروازے پر انگریز دربانی کرے۔ چنانچہ مسلمانوں کو لازم ہے کہ وہ مسلم لیگ کے نصب العین کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے باہم متفق اور متحد ہو کر جد و جہد کریں تا کہ اغیار کی پیش نہ جائے۔
مختلف شعبہ ہائے فکر میں قومی مقاصد کے حصول کی منزل ایک ہے لیکن راہیں جدا جدا ہیں۔ اس کش مکش میں قلم پہ جوذ مہ داری عائد ہوتی ہے وہ سب سے عظیم ہے۔ یاد خدا نے اپنے قلم کوحریت کے ابھی جذبوں کی ترجمانی کے لئے وقف کر دیا جو نجانے کب سے اس سر زمین میں اپنے اظہار کے لئے کلبلا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 1941 ء اور اس کے بعد کے شمارے مسلم لیگ کے جلسوں، قرار دادوں اور قائد اعظم کی تقریروں کی روداد سے بھرے پڑے ہیں جن میں مسلمانوں کو تحریک پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کر کے عملی جدوجہد کی راہ دکھائی گئی ہے ۔ 1941ء کا سال اس لحاظ سے خصوصیت کا حامل تھا کہ اس سال ہندوستان میں مردم شماری عمل میں لائی گئی۔ برصغیر میں مسلمانوں کی عددی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے انھیں اس عمل کے دور رس نتائج سے آگاہ کیا گیا اور اس ضمن میں ہونے والی بے ضابطگیوں کو منظر عام پر لانے سے مقامی طور پر مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوا۔ قائد اعظم کے خصوصی ارشادات کے پیش نظر اردو کا بطور قومی، مادری یا کاروباری زبان اندراج بھی عمل میں لایا گیا جس سے مسلم یکجہتی کو فروغ حاصل ہوا اور نظریہ پاکستان کو تقویت ملی۔ 21 فروری 1941ء کے اداریہ میں اس مسئلہ پر اس انداز میں روشنی ڈالی گئی:
موجودہ عہد اور طرز حکومت میں کسی قوم کے سیاسی حقوق کے اعتراف کا انحصار اس کی تعداد پر ہے۔ اس لئے اگر کوئی قوم مردم شماری کے وقت اپنی صحیح تعداد لکھوانے سے قاصر رہتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ قوم اپنے سیاسی حقوق کا اپنے ہاتھوں زیاں کرتی ہے ۔ برادران اسلام کو لازم ہے کہ وہ مردم شماری کے وقت غفلت سے کام نہ لیں اور پوری بیداری اور ہوشیاری کے ساتھ اپنی قوم کی صحیح اور پوری تعداد لکھوانے کی کوشش کریں تا کہ ان کے سیاسی حقوق کو ان کی غفلت شعاری کی وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ یادر ہے کہ مردم شماری کے ساتھ ساتھ زبان شماری بھی ہوتی ہے اور یہ مسئلہ بھی مردم شماری کی طرح نہایت اہم اور ضروری ہے۔ ہندوستان میں اردو زبان ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک بولی اور کبھی جاتی ہے تاہم ہندوستان کے بعض سیاسی رہ نما اردو کی بجائے ہندی کو رائج کرنے کے متمنی ہیں۔ اردو زبان کی مخالفت اس لئے کی جارہی ہے کہ اس کا رسم الخط عربی کی طرح داہنے ہاتھ سے شروع ہوتا ہے اور اس زبان نے مسلمان بادشاہوں کے عہد میں جنم لیا اور پرورش پائی ہے ۔ اگر یہ زبان اس ملک میں رائج نہ رہی تو مسلمانوں کا یقیناً نقصان ہوگا۔ اس لئے برادران اسلام کا فرض ہے کہ وہ اس زبان کو زندہ اور قائم رکھنے کے لئے اپنی زبان مادری اور کاروباری اردو لکھوائیں۔
اسی سال یا دخدا میں ایک معرکتہ الآراء اداری تحریر ہوا جس کا عنوان تھا ”مسلمانان ہند کا واحد نصب العین پاکستان ۔ اس میں جس طرح مطالبہ پاکستان کے حق میں دلائل دیئے گئے اور مخالف ہندو قوتوں کے نکتہ نظر کا تجزیہ ہو اس سے یاد خدا کی مجلس ادارت کی سیاسی پختگی اور بالغ نظری کا ثبوت ملتا ہے ۔ فکری محاذ پر اس جدو جہد کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر ڈاکٹر عزیز علی نے پاکستان کا نعرہ بلند کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی ۔ اگست 1942ء میں چنیوٹ میں شہری مسلم لیگ کے زیر اہتمام اسلامیہ ہائی سکول کے وسیع د عریض میدان میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے ۔ اس جلسہ کی صدارت نواب افتخار حسین ممدوٹ صدر مسلم لیگ پنجاب نے فرمائی اور ڈاکٹر عزیز علی نے خطبہ استقبالیہ پڑھا۔
اس جلسہ کو چنیوٹ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس اجتماع میں چنیوٹ اور قرب وجوار کے ہزار ہا مسلمانوں نے پہلی بار بیک زبان ہو کر پاکستان کی تائید میں قرار داد پاس کی ۔ اس قرار داد کو پیش کرنے کا اعزاز بھی نومسلم ڈاکٹر عزیز علی کو حاصل ہوا۔ چنیوٹ میں آج بھی ایسے افراد موجود ہیں جن کے کانوں میں 30 اگست 1942ء کی رات’ ڈاکٹر عزیز علی کی زبان سے ادا ہونے والے ان الفاظ کی گونج کبھی کبھار مچل اٹھتی ہے۔ اس تاریخی جلسہ کی رواداد محض اتنی ہے کہ ادھر آخر شب کے ہم سفر پیدہ سحری کے انتظار میں دم تو رڑ رہے تھے اور ادھر مسلمانوں کے اس جم خیر سے عزم وہمت کا سورج طلوع ہورہا تھا۔
مسلم لیگ کا نفرنس چنیوٹ کا یہ اجلاس پاکستان کو مسلمانوں کا سیاسی نصب العین قرار دیتا ہے اور اپنے اس ارادہ کا علی الاعلان اظہار کرتا ہے کہ مسلمان پاکستان سے کم کسی چیز پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ ۔ ۔ یہ اجلاس قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت پر پورے اعتماد کا اظہار کرتا ہے اور ان کے ہر حکم پر لبیک کہنے کو تیار ہے۔
یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بل کہ آنے والے سالوں میں زیادہ شدومد کے ساتھ حصول پاکستان کے لئے راہ ہموار کی گئی ۔ اداریوں سے لے کر مضامین اور خبروں تک میں ایک الگ وطن کی جست جو بے چین و بے قرار نظر آتی ہے۔
کہیں مسلم لیگ کے لئے چندے کی اپلیں ہو رہی ہیں کہیں مقامی اور ضلعی عہدیداروں کی سرگرمیوں کا اندراج ہے۔ کہیں مسلمانوں کی ذہنی تربیت کا فریضہ ادا کیا جارہا ہے کہیں کانگریسی پراپیگنڈہ کا مداوا ہورہا ہے۔ کہیں قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے دیگر زعماء کے ارشادات نقل ہو رہے ہیں اور کہیں منتشر مسلمانوں کو اتحاد اور اتفاق کا درس دیا جا رہا ہے ۔ 1944ء اور 1945ء میں چنیوٹ اور قرب وجوار میں مسلم لیگ کے زیر انتظام کئی ایک جلسے بھی منعقد ہوئے جن میں نواب افتخار حسین ممدوٹ، سردار شوکت حیات راجہ غضنفر علی خان اور میاں عبد الباری جیسے رہ نما شریک ہوئے ۔ ان جلسوں میں نظریہ پاکستان کی وضاحت کے علاوہ مسلم لیگ کے اس عزم صمیم کا اظہار کیا جاتا جو پاکستان کے نام سے مسلمانان ہند کے دلوں میں پرورش پارہا تھا۔
یونینسٹ حکومت کے ابتدائی ایام میں یاد خدا نے اس کی حمایت کی روش اپنائی تھی لیکن 1945ء کے الیکشن میں جب سیاسی چپقلش شدت اختیار کرنے لگی تو یاد خدا میں ایسے مضامین شائع ہوئے جن میں عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ علاقہ کے زمینداروں کو یونینسٹ پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کر کے مسلم لیگ میں شرکت پر آمادہ کیا جانے لگا۔ یاد خدا کی تحریروں میں مسلم زعماء کے ارشادات کے پیش نظر اس پارٹی کی حکمت عملی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
سیاسی عمل میں اس شرکت کے باوجود یا د خدا نے اخوت با ہمی کی پوشاک بھی زیب تن کئے رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ یاد خدا کی تحریریں تحریک پاکستان کے پس منظر میں اتحاد بین المسلمین کی آرزو سے بھی لبریز ہیں۔ مسلم لیگ کی حمایت کے ساتھ ساتھ دیگر مسلمانوں سے وابستگی کا اظہار کر کے یاد خدا نے اجتماعی سوچ اور می یک جہتی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ جب مسلم اکثریت کی قوت باہمی اختلافات کی نذر ہونے لگی تو ملت کا در در رکھنے والے افراد اور اداروں نے انھیں ایک جھنڈے تلے جمع کرنے کی حتی المقدور کوشش کی تا کہ ان کے اجتماعی مفاد کی نگہبانی ممکن ہو سکے۔ یاد خدا کے اس اداریے میں اسی نکتہ نگاہ سے مختلف سیاسی دھڑوں میں ایک جہتی کے فروغ کا عزم نظر آتا ہے: مجلس احرار ہندوستان میں حکومت الہیہ یعنی قرآنی نظم ونسق کو جاری کئے جانے کی علم بردار ہے ۔ خاک سار تحریک اور اس کا بانی علامہ مشرقی غلبہ اسلام کا مدعی ہے۔
مسلم لیگ پاکستان کا مطالبہ کر رہی ہے. ہماری رائے میں ان تینوں مطالبات میں لفظی ہیر پھیر کے سوا کوئی خاص فرق نہیں اور تینوں کا مقصد ایک ہے۔ ہم مجلس احرار اور تحریک خاک سار اور اس کے بانی کو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اگر وہ فی الحقیقت ایمانداری کے ساتھ قرآنی حکومت کے قیام اور غلبہ اسلام کے متمنی ہیں تو انھیں اس وقت مسلم لیگ کی مخالفت کرنے کی بجائے دل و جان سے ایسی حمایت کرنی چاہیے کہ مسلم لیگ کا مطالبہ پاکستان ماننے پر غیر مسلم اور انگریز دونوں مجبور ہو جائیں ۔ جب یہ مطالبہ تسلیم کر لیا جائے تو اس وقت کوئی مسلمان قرآنی حکومت کے قیام اور غلبہ اسلام کا منکر ہونے کی اگر جرات کرے گا تو خواہ وہ مسلم لیگی ہو منہ کی کھائے گا اور مسلم عوام مجلس احرار اور تحریک خاک سار کے مطالبات قرآنی حکومت کے قیام اور غلبہ اسلام ہی کی تائید کریں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ ” صبح کا بھولا شام کو گھر آئے تو وہ بھولا نہیں ہوتا“ کے مصداق مسلم لیگ کے مخالفین مسلم لیگ کی مخالفت چھوڑ کر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں اور مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کو غیر مسلم اور انگریز سے منوانے میں مسلم لیگ کا ساتھ دیں۔
یاد خدا نے مسلم لیگ کی اس واضح حمایت اور سیاسی پختگی وارتقاء کے دیگر مراحل بتدریج طے کئے تھے۔ قرار داد پاکستان کے منظور ہونے سے قبل برصغیر کاسیاس منظر کوئی واضح تصویر پیش نہ کرتا تھا۔ کئی ایک ایا تو میں باہم نبرد آزما تھی اور طرفہ تماشا یہ کہ اسلم کے نام یوا بھی ایک کشتی میں سوار نہ تھے۔ ان کی باہمی رسہ کشی اور انتشار اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ وہ کانگرس کو بھی اپنے دکھ کا مداوا سمجھنے لگے تھے۔ اس وقت تک مسلم لیگ عوامی مقبولیت کے اس مقام سے بہت پیچھے تھی جس نے بعد میں اسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہونے کا شرف بخشا گم کردہ راہ مسلمان ہر اک راہ رو کے ساتھ چل نکلتے اور پھر کچھ دور پہنچنے کے بعد منزل کے نشان نہ پا کر ٹھیر جاتے ۔ یاد خدا چونکہ اپنے دور کے مروجہ رجحانات کی نمائندگی میں پیش پیش رہتا تھا اس لئے اس کا سیاسی سفر بھی کئی ایک نشیب وفراز کا حامل ہے۔ سیاسی بالغ نظری کی منازل طے کرتے ہوئے کئی ایک مقام ایسے آئے جہاں کوئی واضح نصب العین اس کے روبرو نہ تھا لیکن اسی بے یقینی اور الجھاؤ کی کوکھ سے بالآخر اس یقین محکم نے جنم لیا جسے مسلم لیگ اور نظریہ پاکستان کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
سیاسی میدان میں یاد خدا کی اس جدوجہد کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ تمام مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس اخبار نے شروع شروع میں کانگرس کے علاوہ ہر اس جماعت اور تنظیم کی حمایت میں قلم اٹھایا جس میں مسلمان شامل تھے تا کہ مختلف الخیال مسلمانوں کو اتحاد اور اتفاق کی راہ پر گامزن کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ابتدائی شماروں میں یونینسٹ پارٹی ، خاک سار تحریک، مجلس احرار جمعیت العلمائے ہند اور جماعت اسلامی جیسی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لئے بھی ستائیش کے جذبات نظر آتے ہیں جو بعد میں سیاسی مخالفت کے سیل رواں میں بہہ کر مسلم لیگ سے بہت دور نکل گئیں۔ یہی وہ ابتدائی مراحل ہیں جو یاد خدا کے سیاسی رجحانات کی بنیاد بنے اور بالآخر اس منزل تک جا پہنچے جہاں مسلم لیگ کی حمایت ہی اس کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔
1945ء کے الیکشن مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کے لئے ایک بڑی کسوٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ ان میں کام یابی اور ناکامی پر مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کا بڑا دارو مدار تھا۔ یاد خدا نے ان میں مسلم لیگ کی کام یابی کے لئے خالصتا قومی نکتہ نگاہ سے مہم چلائی جس کا اندازہ مندرجہ ذیل دو تحریروں سے کیا جا سکتا ہے:
شملہ کا نفرنس میں کانگرس اور کانگریسی مسلمانوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی نمائندگی کا حق مسلم لیگ کو حاصل نہیں بل کہ کانگرس کو ہے۔ برخلاف اس کے مسلم لیگ نے کہا تھا کہ یہ درست نہیں ہے۔ مسلمانوں کی نمائندگی کا حق صرف مسلم لیگ کو ہے ۔ چنانچہ ان دونوں جماعتوں کی قوت کا اندازہ لگانے کے لئے حکومت کی طرف سے موجودہ الیکشن ہونا قرار پایا۔ اس الیکشن کے نتائج سے معلوم کیا جائے گا کہ کس جماعت کا دعوئی سچا تھا۔ اگر مسلم لیگ کو اپنے دعوے کے مطابق مسلمانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوگی تو مسلم لیگ کا پاکستان کا مطالبہ قابل تسلیم سمجھا جائے گا ورنہ وہ خواب پریشاں بن کر رہ جائے گا۔۔۔۔۔ ہماری رائے میں کوئی مسلمان خواہ کانگریسی ہو یا احراری یونینسٹ ہو یا خاک ساز مسلم لیگ سے علیحدہ رہے گا تو اس کی بڑی سخت غلطی ہوگی۔ اس وقت جب کہ مسلمانوں کی دائی زندگی اور موت کا سوال در پیش ہے، ہم یہ مخلصانہ مشورہ دیئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ غور وفکر اور عقل و تدبر سے کام لیں اور اس الیکشن میں مسلم لیگ کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔
اس نوعیت کے اداریوں اور مختلف مضامین میں جہاں مسلمانوں کو مسلم لیگ کی جانب مائل کیا گیا وہیں اس جماعت کے اندرونی تضادات اور خلفشار کو بھی منظر عام پر لایا گیا۔ یہی طرزفکر ایک آزادانہ متوازن اور جمہوری سوچ کی عکاس ہے: ” کچھ مسلمان بھائی ایسے ہیں۔ جو یہ تو مان چکے ہیں کہ کانگرس مسلمانوں کی دشمن ہے۔ مگر مسلم لیگ کے ساتھ اس لئے تعاون نہیں کرتے کہ یہ سرمایہ داروں نوابوں اور سروں کی جماعت ہے ۔ اس میں غرباء کی نمائندگی نہیں ہوتی نیز شرعی نظام کے قیام کا وعدہ نہیں کیا گیا۔ مندرجہ بالا اعتراضات رکھنے والے مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے کہ مسلم لیگ میں داخلی طور پر لا کھ عیب سہی مگر اغیار کے مقابلے میں مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کا وجود برقرار رکھنے کے لئے اس نے جوصل تجویز کیا ہے وہ معقول ہے یا غیر معقول؟ اگر ان سوالوں کا جواب وہی ہو جو مسلم لیگ کا نکتہ نظر ہے تو مسلم لیگ کی مخالفت مسلم قوم کے حق میں زہر قاتل ہے ۔
مسلم لیگ کے نقائص کی اصلاح مسلمانوں کے لئے ایک خانگی کام کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلمان داخلی طور پر اس کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک جمہوری ادارہ ہے اور ہر جمہوری ادارہ کی باگ ڈور عوام کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اگر بیرونی طور پر اس کی مخالفت اور تخریب کی کوشش کی جائے گی تو آپس کی یہ ہاتھا پائی ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے پیغام موت سے کم نہیں ہوگی یہ اقوام غیر کا مقصد و مدعا ہے اس طرح ہم عام مسلمانوں سے گزارش کریں گے کہ اپنی رنجشوں، برادری کے رشتوں اور دوسرے ہر قسم کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کے عہد یداروں کو کام یاب بناؤ اور پاکستان کا پہلا مورچہ فتح کرلو“۔
اور پھر بالآخر اس عزم جواں اور صدق قلب کی بدولت اسلامیانِ ہند نے نہ صرف پہلا مورچہ فتح کیا بل کہ حصول وطن کی جنگ بھی بعد افتخار جیت لی۔ 1947ء میں حصول وطن کے بعد تحریک پاکستان اپنے انتقام کونہیں پہنچتی کیونکہ اس تاریخی جدو جہد کا طمح نظر ایک خطہ زمین کا حصول نہیں تھا بل کہ یہ کچھ اور ہی دھن تھی جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو راہ عمل پر گامزن کئے رکھا۔ یاد خدا 14 اگست 1947ء کے تابناک دن کے بعد انھی دور رس مقاصد کے حصول کے لئے کمر بستہ نظر آتا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد چنیوٹ میں تقریباً ہمیں ہزار مسلمان پناہ گزین ہوئے ۔ ان کی آبادکاری کے سلسلہ میں ایک صبر آزما جد و جہد کا آغاز ہوا تو یاد خدا نے بھر پور کردار ادا کیا۔ اسی اثنا میں آزادی کی پہلی سالگرہ آن پہنچی ۔ قربانی کی شمعیں ایک بار پھر جگمگا اٹھیں ۔ اس موقعہ پر اس اخبار کی جانب سے خصوصی ” پاکستان نمبر شائع کیا گیا۔ جس میں تحریک پاکستان کے ابتدائی مراحل سے لے کر قیام پاکستان تک کے واقعات کا تفصیلی تذکرہ ملتا ہے۔ مختلف شعبوں میں ترقی کے امکانات کا جائزہ لے کر اس ملک خد داد اور یہاں کے عوام کے لئے ایک خوش آئند مستقبل کی پیشین گوئی کی گئی۔ اس شمارے میں داستان پاکستان کا آغاز اس آیت خداوندی سے ہوتا ہے۔
"اے اللہ تو ہی دیتا ہے حکومت جسے چاہے اور چھین لیتا ہے سلطنت جس سے چاہے اور عزت دیتا ہے جسے چاہے اور ذلت دیتا ہے جسے چاہے۔ بیشک تو ہی ہے ہر چیز پر قادر ۔
اس آیت کو اگر پھیلانا شروع کر دیں تو وہ پاکستان کی کہانی بن جائے گی ۔ کسی نے کہا اس آیت کی تفسیر کا نام ہی پاکستان ہے بل کہ اقوام عالم کی زندگی ہی اس آیت سے وابستہ ہے۔ اسے یادرکھنا عروج کی نوید ہے اور بھول جانا زوال کا پیش خیمہ۔ لیکن عروج وزوال کے اس راز سے اب ہم آشنا نہیں رہے یہی ہمارا المیہ ہے۔
2.4 عالمی تناظر:
مقامی مسائل اور موضوعات کے پہلو بہ پہلو یا د خدا میں تمام انسانیت کو در پیش مشکلات و مصائب اور اس کے مستقبل کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ایک بہتر معاشرے کا تصور محض اپنے گردو پیش تک ہی محدود نہ تھابل کہ اس تصور میں سارا عالم سمٹا ہوا تھا۔ ایک چھوٹے سے شہر کے افق سے نمودار ہو کر یاد خدا نے جس طرح مشرق و مغرب تک پھیلے ہوئے انسانی دکھوں کا احاطہ کیا وہ اس کی ہمہ گیر فکر اور وسعت نظر کا ثبوت ہے۔ یاد خدا کے صفحات میں ایسی بہت سی تحریریں ہیں جن میں برصغیر ہی نہیں بل کہ تمام دنیا سانس لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کہیں بین الاقوامی خبریں ہیں، کہیں جدید رجحانات کی نشاندہی ہے، کہیں نئی ایجادات کا ذکر ہے کہیں دور دراز کی معلومات ہیں، کہیں جنگ، بیماری اور آفات سماوی و ارضی کے اندیشے ہیں اور کہیں ان اندیشوں کی آغوش میں امید کے ستارے جھلملا رہے ہیں۔
1939 ء سے لے کر 1945ء تک اقوام عالم کو دوسری جنگ عظیم کے مہیب اندھیروں نے اپنے گھیرے میں لئے رکھا۔ یہ جنگ عالمی قوتوں کی باہمی چپقلش کا شاخسانہ تھی ۔ جسے برطانیہ اور اس کے حواریوں نے جیت لیا لیکن اس فتح کی قیمت چکانے والے ہندوستانی سپاہیوں کی قربانیوں کا تاریخ نہیں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اتحادی فوج کے سینوں پہ آویزاں تمغوں نے جن بہادروں کے خون سے روشنی پائی انھیں اپنے وطن میں ہی فراموش کر دیا گیا۔ اس جنگ میں ہندوستان نے اپنے غیر ملکی حاکموں کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ اس مٹی کے فرزندوں کو جنگ کے اندھیروں کے اس پار آزادی کی شمع جھلملاتی ہوئی نظر آنے لگی تو انھوں نے اپنی تمام توانائی جنگ کی بھٹی میں دھکیل دی۔ 1939ء سے لے کر 1945ء تک یاد خدا کے اوراق میں بھی اسی سوچ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس طویل جنگ کے دنوں میں یاد خدا نے ہندوستانیوں کو نہ صرف قومی اور ملی نکتہ نگاہ سے بل کہ ایک وسیع تر عالمی تناظر میں اپنا کردار ادا کرنے کی
ترغیب دلائی۔ ڈاکٹر عزیز بلی ایک جگہ رقم طراز ہیں:
اس میں شک نہیں کہ ہندوستان عرصہ دراز سے حکومت برطانیہ کے زیر تسلط چلا آرہا ہے اور ہندوستانی اس وقت محکوم اور ایک غلام کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت برطانیہ نے ہندوستان کو آہستہ آہستہ آزاد کرنے کے جو وعدے کر رکھے ہیں وہ پورے کئے جا رہے ہیں۔ اب حکومت برطانیہ کی طرف سے واضح طور پر اعلان ہو چکا ہے کہ جنگ کے بعد ہندوستان کو آزادی دے دی جائے گی اور اس پر برطانیہ کا کسی قسم کا تسلط نہ رہے گا۔ اس اعلان کی موجودگی میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ ہندوستان کی سیاسی جماعتیں نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے جس مقصد کے لئے جدوجہد کرتی چلی آئی ہیں وہ جنگ کے بعد پورا ہونے والا ہے لیکن یہ بات فراموش نہیں کی جاسکتی کہ خدانخواستہ اگر حکومت برطانیہ دشمنوں سے مغلوب ہو جائے تو ہندوستان کی وہ آزادی جو اسے خاتمہ جنگ پر حاصل ہونے کو ہے خواب پریشان بن کے رہ جائے گی ۔ اور ہندوستان کو مزید ایک عرصہ دراز تک کسی دوسری حکومت کا غلام بن کر رہنا پڑے گا۔ اس لئے ہر ہندوستانی اور طالب آزادی پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس جنگ میں حکومت برطانیہ کو دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے میں امداد دے تاکہ وہ جنگ کے بعد ہندوستانیوں کو آزاد کرنے کا وعدہ وفا کر سکے۔
(21 اگست 1942 ء ) اسی سوچ کے پیش نظر جنگ کے تمام عرصہ کے دوران یاد خدا میں اس سے متعلق خبر میں خصوصی طور پر شائع کی جاتیں اور اہل علاقہ کو اس جنگ میں حصہ لینے پہ آمادہ کیا جاتا۔ برطانوی حکومت کو مالی امداد دینے والے افراد کا نمایاں طور پر ذکر ہوتا۔ اعلیٰ انتظامی افسران کی چنیوٹ میں آمد پر شہریوں اور سرکاری اداروں کی جانب سے خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ باقاعدہ جلسہ عام منعقد ہوتا اور جنگ کے فنڈ کے لئے روپوں کی تھیلیاں پیش کی جائیں۔ ان تقریبات کی روداد یا دخدا میں التزام کے ساتھ شائع ہوتی ۔ اس کے علاوہ ہر اہم جنگی واقعہ کا ذکر اور دیگر تفصیلات بھی یاد خدا میں موجود ہیں ۔ ہٹلر اور مسولینی کے عزائم جنگی حملوں کی لمحہ لمحہ کہانی ، اتحادی فوجوں کی قربانیاں، ہندوستان کے محب وطن افراد کا رد عمل دنیا کے سیاسی اور معاشی نظام پر اثرات غرضیکہ اس جنگ نے جس جس طرح انسانی زندگی معاشرت اور ضمیر کو متاثر کیا اس کی جھلک یا دخدا کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔ فروری 1942ء میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرجان ڈوکس جنگ چنیوٹ تشریف لائے تو انہیں شہریوں کی جانب سے عطیہ جنگ کے طور پر رقم پیش کی گئی۔ اس کے علاوہ مارچ 1942ء میں گورنر پنجاب ہز ایکسیلینسی سربرٹرینڈ جیر نکلینی نے بھی ضلع جھنگ کا دورہ کیا۔ ان کے اس دورہ کے موقع پر ضلع جھنگ کے ان روؤساء اور امراء کو خصوصی خلعتوں انعامات اور اسناد سے نواز ا گیا جنھوں نے اس جنگ کے دوران سرکار برطانیہ کی بڑھ چڑھ کر امداد کی تھی ۔گورنر پنجاب نے اس موقعہ پر جو تقریر کی وہ تعریف، ترغیب اور تحکم آمیز لہجے کا دل چسپ امتزاج ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ سے برطانوی استعار کے شاطرانہ ذہن کی غمازی ہوتی ہے کہ کس طرح ہندوستان کے انسانی وسائل کو اپنے مقاصد کی ترویج کے لئے استعمال کیا گیا۔ انھوں نے فرمایا:
” میرا جھنگ آنا بڑی دل چسپی کا باعث ہے ۔ یہ امر نہایت حوصلہ افزا ہے کہ آپ جہاں ایک سال پہلے ایک ماہ میں صرف ایک درجن رنگروٹ مہیا کر سکتے تھے وہاں اب آپ چار گنا تعداد میں رنگروٹ دے رہے ہیں۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ ہر اس شخص کے بدلے جو بھرتی ہو چکا ہے پچاس صحیح الجسم نوجوان ایسے اور بھی ہوں گے جو بھرتی ہو سکتے ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ بھرتی ہونے والے رنگروٹوں کی ماہانہ تعداد بہت جلد کم از کم 200 اشخاص تک پہنچ جائے گی ۔ بھرتی کی مہم کو ترقی اور وسعت دینے کے لئے آپ کو تاکید کرتے وقت مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ کام آپ ہی کے مفاد کے لئے ضروری ہے ۔ اب آپ کے کثیر التعداد بہادر نو جوانوں کے لئے صرف ہل چلانے کا وقت نہیں رہا۔ اب ان کے فرض کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مسلح فوجیوں کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ ہر ذیلدار ہر نمبر دار کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں سرگرمی سے امداد کرے ۔ جو اس میں ناکام رہیں گے انھیں کسی معاوضہ کی توقع نہ رکھنی چاہیے۔ آپ کو گورنمنٹ کا یہ فیصلہ یا درکھنا چاہیے کہ جنگ کے بعد جب نو آبادیوں میں اراضی کے عطیات تقسیم کئے جائیں گے تو اس وقت اضلاع میں غیر معمولی نوعیت کی جنسی خدمات والوں کے حقوق نظر انداز نہیں کئے جائیں گئے۔
بے چارہ غریب ہندوستانی مکر و فریب کی اس سیاست کے سامنے مارکھا گیا۔ اس کی سادگی الفاظ کے ان پیچ وخم میں الجھ کے رہ گئی ۔ کچھ لوگ ترغیب اور حرص کا شکار ہوئے جبکہ کچھ لوگ اس لڑائی کو مقدس جنگ سمجھ کر اس میں شریک ہوئے۔ ضلع جھنگ کے قبائل اپنی قدیم روایات اور خاندانی عصبیت کی بدولت بڑے جنگجو آنہ رجحانات کے حامل ہیں۔ پلٹنا اور جھپٹنا ان کی سرشت میں شامل ہے۔ قلم سے زیادہ تیغ فساں پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ انھی بہادرانہ جذبات کو ابھارنے کے لئے 20 اکتوبر 1939ء کے یا دخدا میں ایک نظم شائع ہوئی جو اس علاقے کے قبائل اور برادریوں کے انفرادی خصائص کی بھی نمائندگی کرتی ہے:
اے جھنگ کے سیالو
مخدومو پیرو خانو
اے تھل کے نوجوانو
اے جھنگ کے بلوچو
شمشیر بند ہرلو
سپراڈ کجکا ہو
پنجاب کے دلیرو
ہے وقت کام کر لو
اے غرو جاہ والو
اے شیر دل پٹھانو
کچھی کے ساربانو
ملت کی قدر سوچو
اے باوقار کھرلو
بھٹی جہاں پناہو
تیغ آزماو شیرو
اونجا مقام کر لو
جنگی علم سنھبالو
بھرانو نسو آنو
اے قوم کی اٹھانو
دشمن کو جا دبوجو
یورپ میں آئی پرلو
پنجاب کی سپاہو
دشمن کو جاکے گھیرو
دنیا میں نام کر لو
دیکھو کہ جنگ آئی
ہے لالہ زار دیکھو
امن جہاں کو خطرہ
پنجاب کے دلیرو
ہے وقت کام کرلو
سوفننے ساتھ لائی
خونباہ بار دیکھو
سارے زماں کو خطرہ
تیغ آزماو شیرو
اونجا مقام کرلو
یورپ کی ہر ترائی
برباد کار دیکھو
ہندوستان کو خطرہ
دشمن کو جا کے گھیرو
دنیا میں نام کر لو
اس نظم کے مخاطب سیال، مخدوم پیر (سید)، خان بھروانہ نسوآنہ ہر کھرل، سپرا اور بھٹی قبائل زیادہ تر چنیوٹ تحصیل ہی کے رہائشی ہیں۔ گویا اس نظم میں پورے علاقے کو مخاطب کر کے میدان جنگ میں حصہ لینے پر آمادہ کیا گیا ہے۔ اس طرح کی نظمیں مضامین اور اپیلیں یاد خدا کے اوراق میں اکثر نظر آتی ہیں۔ اس طویل جنگ میں ان گنت قربانیاں دینے کے بعد جب برطانیہ کو فتح نصیب ہوئی تو پورے ہندوستان کی طرح چنیوٹ میں بھی فتح کے شادیانے بج اٹھے۔ یاد خدا 14 مئی 1945ء کے مطابق:
” آج سارا دن اہل چنیوٹ جشن فتح منانے میں مصروف رہے۔ چار بجے کے قریب ایک عظیم الشان جلوس نکلا۔ مقامی پولیس، تمام آفیسر اور شہر کے عوام و معززین جلوس میں شامل ہوئے۔ جلوس کے ساتھ بینڈ باجے کا انتظام تھا اور ساتھ ہی ساتھ قدم قدم پر گولے چھوٹتے تھے ۔ تقریباً دو گھنٹے تک جلوس شہر کے بازاروں میں گشت کرتا رہا۔ اس کے بعد اسلامیہ ہائی سکول میں ایک جلسہ منعقد ہوا۔ بچوں میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ غریبوں کو کھانا کھلایا گیا۔ مسجدوں اور مندروں میں فتح کے شکرانے پڑھے گئے۔ ساری دنیا پر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس خونی معرکہ میں ہندوستان نے دامے درمے سخنے قدمے اتحادیوں کی پوری تندہی سے امداد کی اور اس فریضہ کی بجا آوری میں جان و مال سے دریغ نہیں کیا اور اس وقت تک چین نہیں لیا جب تک دشمن کا سر کچل کر نہیں رکھ دیا۔ یہ موقع ہے کہ برطانیہ ہندوستان کی قربانیوں کی قدر عملی طور پر کرے۔ بڑے فخر سے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ جنگ قیام امن اور پس ماندہ اقوام کو نعمت آزادی سے مالا مال کرنے کی خاطر لڑی گئی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستانی جنگی خدمات کے اعتراف میں نہایت فراخ حوصلگی اور دریا دلی سے کام لئے اسے بھی مال غنیمت کے حصہ کے طور پر آزادی کی نعمت عظمیٰ سے فیضاب ہونے کا موقع دیا جائے تا کہ دنیا پر واضح ہو جائے کہ برطانیہ کے ارباب بست و کشاد کے قول وفعل میں کس درجہ تطابق ہے اور ان کو پس ماندہ اقوام کے ساتھ کئے گئے مواعید کا کس حد تک پاس ہے تا کہ کسی معترض کو ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور“ کی حرف گیری کا
موقع نہ مل سکے۔
یاد خدا کی یہ سوچ محض عالمگیر جنگ اور برصغیر کی آزادی کے تصور تک ہی محدود نہ تھی بل کہ اس میں جنگ کے اندھیروں اور تباہی و بربادی کے اس پار تعمیر ہوتی ہوئی ایک نئی دنیا کی خواہش بھی مچل رہی تھی ۔ یاد خدا میں ہر سال کے آغاز پر واقعات عالم کے حوالے سے ایک ادار یہ تحریر ہوتا جس میں گزشتہ سال کی ناکامیوں پر اظہار افسوس کے بعد مستقبل کے آنگن میں کھلتے ہوئے پھولوں کو تلاش کیا جاتا۔ جنوری 1942ء کے ایک اداریہ میں سال نو کا خیر مقدم کرتے ہوئے ڈاکٹر عزیز علی رقم طراز ہیں: گردش ایام نے گزشتہ دو تین سال سے ہمیں ایسے حالات سے ہمکنار کر رکھا ہے جن کے تصور سے زبان قلم کا سینہ فگار ہے۔ زمانہ ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جس میں ظلم وستم کی فراوانیاں ہیں۔ جہاں تیغ براں، شمشیر آبدار، توپ و تفنگ گولہ و بارود مشین گن، ٹینک اور فضا میں گولہ باری کرنے والے ہوائی جہاز قیامت برپا کئے ہوئے ہیں۔ جہاں انسان ایک جنس ارزاں ہو کر تباہی و بربادی کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ لاکھوں بل کہ کروڑوں ناز کے پائے یتیم و بے کس ہو چکے ہیں۔ لاکھوں مائیں اپنے لخت جگر ذبح کروا چکی ہیں۔ کروڑوں سہاگنوں کے سہاگ خاک میں مل چکے ہیں۔ سکون واطمینان آرام و چین نا پید ہیں اور اس طرح کہ بظاہر امن وسلامتی کی توقع کرنا بھی اپنے آپ کو فریب میں مبتلا کرنے کے مترادف تصور ہونے لگا ہے۔ نہ معلوم یہ کشت و خون کا سلسلہ کتنا طویل اور دراز ہو اور یقتل و غارت کا بازار کب تک گرم رہے
اور کب تک اس خون کی ہولی میں مغرب سے لے کر مشرق تک ہر ذی روح اپنے آپ کو خون سے رنگتا رہے۔ نہ معلوم 1942ء بھی کس قدر ہولنا کیوں سے معمور ہو کر آیا ہو اور وہ طوفان بدامنی جو مغرب سے اٹھا ہے اور اب مشرق میں داخل ہوا چاہتا ہے کہاں جا کر تھے اور اس عرصہ میں کتنے نوجوانوں کی جوانیاں بھینٹ چڑھیں۔ کتنے صاحبانِ فن اور کتنی اہل ہنر اور باکمال شخصیتیں اس سیلاب کی نذر ہو جائیں ۔ کیا 1942ء بھی غارتگری کا پیش خیمہ ہے اور کیا اس کے دامن میں بھی برق و خاطف کی تباہی و بربادی پنہاں ہے۔
نصف صدی کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ سوال انسانی ضمیر کو کرید رہے ہیں اور عصر حاضر تاریخ کے کٹہرے میں سرنگوں ہے۔
2.5 چنیوٹ میں معاشرتی اور اصلاحی تحریکیں :
بیسویں صدی کی چوتھی دہائی نئے خیالات انقلابی تحریکوں، بلند عزائم اور جھلمل جھلمل امیدوں کا زمانہ تھا۔ ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقہ میں بیداری کی لہر نے انھیں طبقاتی اور سماجی کش مکش کے نئے مرحلوں سے روشناس کیا۔ پرانی اقدار کی شکست وریخت ایک نئے سماج کی تشکیل کا پیغام تھی ۔ فرسودہ رسوم ورواج نے جہاں ترقی کی راہیں مسدود کر رکھی تھیں وہیں ان کے افق سے ایک نئی سحر طلوع ہونے کو تھی ۔ ان حالات میں اہل قلم پہ جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے یاد خدا اور اس کی مجلس ادارت کے ہر رکن کو اس کا مکمل شعور تھا یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں ہر اس رسم اور روایت کو جھٹلایا گیا جولوگوں کے قدموں سے زنجیر بن کے لیٹی ہوئی تھی۔ یا دخدا کا اصل مخاطب چونکہ مسلم معاشرہ کے افراد تھے اس لئے اس میں ان کی بہتری اور بہبودی کے لئے خصوصی مضامین اور اداریے تحریر ہوتے تھے۔ مسلم معاشرے میں عورت کا مقام، تعلیم نسواں کی اہمیت افراد کی تربیت میں عورت کا کردار جہیز کی لعنت اور شادی بیاہ سے وابستہ فضول رسومات پر خاصا مواد نظر آتا ہے ۔ یہ موضوعات آج بہت عام ہی لیکن آج سے نصف صدی قبل ان یہ آزادی سے اظہار خیال کرنا سوچ کے کئی ایک سومنات سر کرنے کے مترادف تھا۔ ان تمام تحریروں میں ترقی پسند خیالات کی جھلک کے ساتھ ساتھ اس درد اور اضطراب کی لہر بھی نظر آتی ہے جو اپنی فکر اور تہذیب کے انحطاط پر مسلم معاشرہ میں اٹھ رہی تھی ۔
معاشرے میں موجود برائیوں کے خلاف جہاد ایک مستحسن قدم ہے جسے حرمت قلم کے پاسداروں نے ہمیشہ اختیار کیا۔ لیکن ان برائیوں کے خاتمہ کے علاوہ جب تک مثبت اور تعمیری روایات کی بنیاد نہ ڈالی جائے اس وقت تک اعلیٰ وارفع مقاصد کی تکمیل ممکن نہیں ہو سکتی۔ یادخدا نے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں پر مرہم رکھنے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر ایسی تحریکوں کی ہم نوائی بھی کی جو اصلاح معاشرہ کا علم لے کر جہد مسلسل کی منزلیں سر کر رہی تھیں۔ انجمن اسلامیہ چنیوٹ انجمن اصلاح المسلمین اور مفاد عامہ کمیٹی کے ساتھ یاد خدا کا اشتراک عمل خصوصی طور پر قابل ذکر ہے۔ انجمن اسلامیہ چنیوٹ کے ساتھ یاد خدا کے روابط موافقت مخالفت اور مغائرت کا پر تو تھے ۔ ڈاکٹر عزیز علی اپنی آزادانہ سوچ کی وجہ سے سخت تنقید کے عادی تھے جبکہ انجمن کے لوگ تنقید کی اتنی کاری ضرب کے خوگر نہ ہو سکے ۔ اسی کش مکش میں باہمی اختلافات کئی ایک منزلوں سے گزر کر بالآخر اجتماعی بہبود کی خواہش تلے دفن ہو گئے۔ ان تعلقات کا جائزہ لینے سے قبل انجمن اسلامیہ چنیوٹ کے قیام اور اس کی خدمات کا اجمالاً تذکرہ غیر ضروری نہ ہوگا۔ یہ 1900ء کے لگ بھگ کا ذکر ہے جب چنیوٹ ایک چھوٹا سا قصبہ ہوا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہاں کے ایک مشہور مخیر شخص ملک بھگوان داس نے کچھ مقامی ہندوؤں کے مشورہ سے اپنے ہم مذہب افراد کے لئے ایک مڈل سکول کی بنیاد رکھی جو کچھ ہی عرصہ کے بعد ہائی سکول کا درجہ اختیار کر گیا اور ایم ۔ بی ہائی سکول کے نام سے مشہور ہوا۔ تعلیمی شعبہ میں اس پیش رفت کی بدولت ہندوؤں کی کایا پلٹنے لگی جبکہ مسلمان بدستور جہالت کے اندھیروں میں گھرے ہوئے تھے۔ اس صورت حال نے چنیوٹ کے صاحب دل مسلمانوں کو سوچنے پہ مجبور کیا ۔ ملت کے درد نے کروٹ لی اور انھوں نے بھی علمی میدان میں ہندوؤں کے مقابلہ کی ٹھانی۔ کیم تمبر 1902ء کو چنیوٹ کی تاریخی شاہی مسجد کے بیرونی باغ میں چنیوٹ کی خوجہ برادری کا ایک اجتماع ہوا جس میں مسلمانوں کی زبوں حالی پر احساس تاسف کے ساتھ ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی کا فیصلہ ہوا۔ وسائل کی تنگی اور عزائم کی وسعت و پختگی برسر پیکار تھے۔ لیکن فیصلے کی گھڑی بھی دور نہ تھی ۔ ادھر شاہی مسجد کے بلند میناروں سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی ادھر انجمن اسلامیہ چنیوٹ کے نام سے ایک جماعت کے قیام کی قرار داد منظور ہوئی ۔ اذان کی آواز سے گویا اس تاریخی فیصلے پہ مشیت ایزدی کی مہر ثبت ہو گئی۔ انجمن اسلامیہ کے قیام کے سلسلہ میں جن افراد نے کلیدی کر دار ادا کیا ان میں حاجی سلطان محمود ودھاون المعروف بانی حاجی سلطان محمود و هاون کل والے اور حاجی سلطان محمود گوں المعروف ناظم سر فہرست ہیں۔ اس تاریخ ساز اقدام کے حوالے سے یہ تینوں نام چنیوٹ کی تاریخ میں بے حد معتبر خیال کئے جاتے ہیں نذیر مجیدی نے اپنی ایک تحریر میں ان افراد کی خدمات کا اس طرح ذکر کیا ہے:
”حاجی سلطان محمود بانی اور ان کے جانشین میاں سلطان محمود ناظم کی حیثیت سرسید احمد مرحوم سے بالکل مشابہ ہے جنھوں نے اپنی قومی یہی خواہی کا عملی ثبوت اپنی زندگیوں کو قوم کے مفاد کے لئے وقف کر دینے میں دیا۔ آج اگر چہ یہ قابل صد عزت و احترام بزرگان قوم ہم میں موجود نہیں تا ہم ہمارے سامنے ان کے سوانح حیات ہیں اور ان کے کارہائے نمایاں جنھوں نے ان کو حیات دوام کا مرتبہ دے رکھا ہے ہمارے لئے مشعل راہ کا کام دے رہے ہیں اور چنیوٹ کا مورخ ان کی بے لوث خدمات کو سنہری حروف سے سراہنے پہ مجبور ہے۔“ ( یاد خدا 7 جولائی 1939ء) انجمن کے اغراض و مقاصد کی ایک طویل فہرست مرتب کی گئی لیکن سب سے پہلے محلہ چاہ محمد دین میں ایک تعلیمی مدرسہ قائم ہوا۔ چند ہی دنوں بعد یہ مدرسہ محلہ راجے والی میں میاں کریم بخش بھراڑہ کی حویلی میں منتقل ہو گیا۔ شہر بھر میں حصول علم کی ایسی اور چل نکلی کہ یہ حویلی بھی طلباء کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے کم پڑگئی اور مدرسہ کو شاہی مسجد چنیوٹ کی عمارت کے جنوبی برآمدوں میں منتقل کرنا پڑا۔ 1905ء میں یہ مدرسہ پرائمری سے مڈل اور چند سالوں بعد ہائی سکول کی منزل تک آن پہنچا۔ چالیس سال تک یہ مدرسہ یہ ہیں قائم رہا لیکن جب اس عمارت کی وسعت بھی طلباء کی تعداد کی متحمل نہ ہوسکی تو اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ کے لئے ایک نئی عمارت تعمیر کی گئی۔ یہ عمارت بے لوث جذبوں اور قومی امنگوں کی منہ بولتی تصویر ہے جس کے درودیوار پہ خوجہ برداری کے ایثار کی داستان کندہ ہے ۔ یاد خدا کے 1940ء کے ایک شمارے میں حافظ خدا بخش صغیر انجمن اسلامیہ کی اس طویل جدوجہد کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” شمال مغربی ہند کے صوبہ پنجاب میں ایک قصبہ ہے جس کا نام چنیوٹ ہے جو جھنگ کے ضلع کی ایک تحصیل کا صدر مقام ہے۔ جب ہندوستان میں سرسید مرحوم کی قیادت میں تعلیم کا آغاز ہوا اس وقت سے لے کر 1902ء تک یہ قصبہ تعلیمی روشنی سے کسی طرح بھی بہرہ ور نہ ہو سکا۔ اس قصبہ کے لوگوں میں دو تہائی آبادی مسلمانوں کی ہے اور ان میں تجارت پیشہ اصحاب کی کثرت ہے جو پنجاب کی اصطلاح میں کھو جے ( خو جے ) کہلاتے ہیں۔ یہ قوم تمام ہندوستان کے مسلمانوں میں امتیازی درجہ رکھتی ہے۔ اور اپنی دولت اور خوشحالی میں ضرب المثل ہے۔ اس قوم کے بزرگوں کو تمبر 1902ء میں یہ خیال پیدا ہوا کہ تعلیمی تنگ و دو میں وہ بھی حصہ لیں چنانچہ ایک سکول کی بنیاد رکھ دی گئی جو پرائمری سے گزر کر مڈل سے ترقی کر کے 1915ء میں ہائی سکول کے درجہ تک جا پہنچا۔ اس کی برکت سے چنیوٹ زیور تعلیم سے آراستہ نظر آنے لگا اور ہزاروں غریب طلباء مفاد تعلیمی سے مستفید ہوتے ہوئے بانیان سکول کو دعائے خیر دیتے ہوئے دنیا کے مختلف شعبوں میں نظر آنے لگے۔ مدرسہ کے آغاز کے وقت ایک عظیم جوش و جذبہ کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں مدرسہ کے استحکام اور اس کی نئی عمارت کی تعمیر کے موقعہ پر بھی شیخ برادری کے زعماء نے اسی ولولے سے جدو جہد کی ۔ لاکھوں روپے کے عطیات اور مساعی جمیلہ کی بدولت یہ نئی عمارت بھی مکمل ہوگئی اور چنیوٹ کی علمی اور تعلیمی زندگی میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ انجمن اسلامی چینیوٹ اور یہاں کی شیخ برادری نے اسلامیہ سکول کے علاوہ بھی بہت سے تعمیری اور رفاہی ادارے قائم کئے ۔ بقول شیخ عبد الرحیم (یادخدا 1958ء) چنیوٹ میں گزشتہ نصف صدی کے اندر جتنے بھی تعلیمی، خیراتی ، دینی اور رفاہی ادارے قائم ہوئے ہیں۔ سب کے سب بلا شرکت غیرے قوم خوجگان کی فیاضی، زمانہ شناسی اور احساس ملی کے رہین منت ہیں۔ ڈاکٹر عزیز علی اور یاد خدا نے انجمن اسلامیہ چنیوٹ کے نیک مقاصد کی ہمیشہ دل و جان سے حمایت کی۔ سکول کی عمارت کی تعمیر کے موقعہ پر چندہ کی فراہمی کے سلسلہ میں فکر آمیز مضامین اور اداریے لکھے گئے جن میں مختلف اصحاب کی خیر انہ کاوشوں کو سراہا گیا لیکن جب شیخ برادری کے کچھ اصحاب اس زعم میں مبتلا ہوئے کہ ان کی یہ دریادلی سرزمین چنیوٹ اور اس کے باشندوں پر احسان کا درجہ رکھتی ہے اور انھوں نے اس امر کی کوشش کی کہ انجمن اسلامیہ اور خوجگان کی جانب سے امداد وصول کرنے والے اداروں سے عام مسلمانوں کی بجائے صرف شیخ برادری کے افراد ہی مستفید ہوں تو یاد خدا میں اس روش کے خلاف احتجاج کا آغاز ہوا۔
چنیوٹ کے لوگ ایک مدت سے اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ قوم خوجگان اپنے بے پناہ وسائل کی وجہ سے گویا قدرت کی جانب سے پابند ہے کہ چنیوٹ کے ہر خاص و عام کے لئے بلالحاظ فرقہ و حیثیت ہر تم کے خیراتی اور رفاہی کام سرانجام دیتی رہے ۔ یاد خدا نے جہاں شیخ برادری کو ان کے اس فریضے کی یاد دلائی وہیں ان افراد پرسخت تنقید بھی کی جو شیخ برادری کو شہری زندگی کے اجتماعی دھارے سے الگ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان افراد کے متعلق بھی حرف ملامت تحریر ہوئے جو با اختیار و با ثروت زمیندار گھرانوں کے فرزند ہونے کی حیثیت سے چنیوٹ کی سیاست پر اجارہ داری کو اپنا حق سمجھتے مگر نیکی اور فلاح کے کاموں کو صرف انجمن اسلامیہ کے کاسہ گدائی میں ڈال دیتے۔ یاد خدا نے یہ نعرہ بلند کیا کہ انجمن کو تمام مسلمانوں کی خدمت کا فریضہ ادا کرنا چاہیے ورنہ یہ انجمن اسلامیہ کی بجائے انجمن خوجگان بن جائے گی۔ لیکن انجمن کے ارباب نے تنقید کے اس مثبت انداز کو قبول نہ کیا۔ اختلافات میں اس قدر شدت پیدا ہوئی کہ 1945ء میں معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ ذاتی غرض و غایت اور جاہ و حشمت کی چاہ نے منزل کے نشان بھی دھندلا دیئے ۔ ان حالات میں نہ صرف انجمن کی مجموعی کار کردگی متاثر ہوئی بل کہ ان کی تعلیمی سرگرمیوں کو بھی زک پہنچی اور اسلامیہ ہائی سکول کا معیار گرنے لگا۔ تاہم ڈاکٹر صاحب کی اس تنقید کے نتیجہ میں انجمن اسلامیہ کو اپنی بہت سی خامیاں اور انتظامی کو تا ہیاں دور کرنے کا موقعہ بھی میسر آیا اور یہ سکول دوبارہ ایک مثالی ادارے کی صورت اختیار کر گیا۔ انجمن اسلامیہ چنیوٹ نے جس طرح اسلامیہ ہائی سکول کی بنیاد رکھی اور بعد ازاں اس کی شاندار عمارت تعمیر کروائی اس طرح لڑکیوں کو یو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے مدرستہ البنات کا قیام بھی انجمن کی علم دوستی کا ثبوت ہے ۔ یہ مدرسہ 1940ء میں قائم ہوا تھا۔ اس مدرسہ تھا۔ اس مدرسہ کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ دوست محمد منیجر مدرستہ البنات یاد خدا میں لکھتے ہیں:
قوم کی صحیح نشود نما اور ملت کی حقیقی ترقی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک دختران ملت صحیح معنوں میں دین حق کی شیدائی نہ ہوں۔ اس پاکیزہ درس گاہ سے قوم کی دختران فرخندہ اختر زیور علم اور جہیز تربیت سے آراستہ و پیراستہ ہو کر آئندہ نسل کے گھروں کو ہنر مندی، سلیقہ شعاری، دینی اور دنیاوی اوصاف جمیل کی درخشندگی سے جنت اور خلد بنادیں گی۔ ( یاد خدا 14 فروری 1941ء) یہ مدرسہ ایک قلیل مدت کے لئے کرائے کی عمارت میں قائم رہا۔ کچھ دیر بعد اسے عمر حیات کے بے آباد محل میں منتقل کرنے کی تجویز پیش ہوئی جو پروان نہ چڑھ سکی۔ بعد ازاں ایک طویل تگ ودو کے بعد بلد یہ چنیوٹ سے ایک عمارت پچاس سالہ پٹہ پہ حاصل کی گئی اور وہاں تعلیم و تربیت اور رشد و ہدایت کے موتی بکھرنے لگے۔ مدرستہ البنات کے قیام اور اس کی خدمات کی سرگزشت یا دخدا کے صفحات میں محفوظ ہے اور اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں چنیوٹ میں جو نسل پروان چڑھی اس کے کانوں میں گونجنے والی ممتا کی لوریاں اور دلوں پر نقش نیکی کی آرزو کا مقام آغاز اسی مدرسہ کے درودیوار
ہیں۔ چنیوٹ میں انجمن اسلامیہ کے علاوہ مسلمانوں کی بہبود کے لئے مجلس اصلاح المسلمین کے نام سے ایک اور ادارہ بھی سرگرم عمل رہا۔ یہ مجلس 1934ء میں چند روشن خیال اور درد دل رکھنے والے مسلمانوں کی کاوش سے وجود میں آئی۔ اس کے بانیوں میں بڑے بڑے ناموں کی بجائے متوسط طبقہ کے جواں ہمت افراد شامل تھے ۔ دس بارہ سال کا طویل عرصہ یہ مجلس نہایت فعال رہی اور اس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ ڈاکٹر عزیز علی اس کے پر جوش کارکن اور عہدہ دار تھے مجلس کے زیر انتظام کئی ایک ذیلی ادارے قائم تھے اس لئے یاد خدا میں اس کی سرگرمیوں کی مکمل تفصیل شامل ہوتی تھی ۔ جن میں شعبہ مدارس تعلیم القرآن، شعبہ مسلم سرائے شعبہ امداد غرباء ویتامی، شعبه آب رسانی شعبہ اشاعت و تبلیغ اسلام اور شعب تعمیر ومرمت مساجد نمایاں تھے۔ شعبہ تعلیم القرآن کے تحت چنیوٹ کے مختلف محلوں میں دینی مدارس کا اجراء ہوا۔ ان مدارس میں مدرسہ حافظ دیوان مدرسه محله عالی مدرسه محله کوئی مدرسہ محلہ راجان مدرسہ محل کشفی اور مدرسہ محلہ مہترحسین شامل تھے جہاں دینی تعلیم کے علاوہ مروجہ تعلیم کا خاطر خواہ بندو بست تھا۔ چنیوٹ اپنی تاریخی اور کاروباری حیثیت سے ان دنوں بھی مرجع خاص و عام تھا لیکن یہاں مسافروں کے قیام کا کوئی مناسب انتظام موجود نہ تھا۔ رفاہ عامہ کی اس اہم ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مجلس کی جانب سے ایک مسلم سرائے قائم کی گئی جہاں ہر مذہب وملت کا آدمی معمولی کرایہ پر ٹھیر سکتا تھا۔
چنیوٹ کے پہاڑی علاقے میں پانی کی عدم دستیابی کی بناء پر مجلس اصلاح امسلمین نے دور دراز کے علاقوں میں آب رسانی کی ذمہ داری بھی اپنے ذمہ لے لی اور چنیوٹ شہر اور اس کے گردونواح میں سو کے قریب پانی کے نلکے نصب کئے گئے ۔ جس سے خلق خدا بلا امتیاز مذہب فیض یاب ہوتی رہی ۔ اس طرح شعبہ امداد غرباء اشاعت و تبلیغ اسلام اور تعمیر ومرمت مساجد کے ضمن میں بھی مجلس نے قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ مجلس کے اجلاس ہائے کی کارکردگی یا دخدا میں خصوصی طور پر شائع کی جاتی تھی جس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا سر گرمیوں کے علاوہ بھی اس کا دائرہ کار وسیع تھا اور ہر طرح کے شہری مسائل کے سدباب کے لئے اس کے کارکن ہمہ وقت کمر بستہ رہتے تھے۔ فیض کے ایسے ہی کئی اسباب نے اراکین مجلس کی یاد کو دوام بخشا ہے۔ انجمن اسلامیہ اور مجلس اصلاح المسلمین جیسی تحریکوں کے علاوہ بھی مفاد عامہ سے وابستہ ہر سرگرمی میں یاد خدا نے اپنا کردار ادا کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ چنیوٹ میں جب مفاد عامہ کمیٹی تشکیل دی گئی تو ڈاکٹر عزیز علی کو ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اس کا صدر منتخب کیا گیا۔ یہ کمیٹی بھی شہروں کی عمومی مشکلات اور مسائل کے حل کے لئے بڑی تندہی سے مصروف عمل رہی۔ یاد خدا نے جہاں شہری اور مقامی مسائل پر قلم اٹھایا وہیں زمینداروں اور کسانوں کی حالت زار کو منظر عام پر لانا بھی اپنا فرض سمجھا۔ سماج کی اہم ترین قوت وہ محنت کش کسان ہیں جن کی محنت اور ہنر نے انسانی معاشرے کو بتدریج ارتقاء کی بلند منزلوں سے ہمکنار کیا ہے۔ انسانی تاریخ فی الحقیقت بادشاہوں پر سالاروں یا سیاسی رہ نماوں کی سرگزشت نہیں بل کہ ان محنت کش انسانوں کی اجتماعی جدوجہد کا ثمر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے معاشرے کی اس بنیادی اکائی کو بھی غلامی، کبھی بادشاہت اور کبھی جاگیردارانہ نظام کی صلیب پر لٹکایا گیا۔ آج سے پچاس سال پہلے پنجاب ایک انتہائی پس ماندہ علاقہ تھا۔ یہاں صنعت کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا اور تقریبا نوے فیصد آبادی زراعت کے پیشہ سے منسلک تھی۔ بے چارہ ودہقان ہمیشہ کی طرح تعصب و جہالت، فرسودہ قوانین اور ساہوکار کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا۔ اس کی شب وروز محنت کا شر مہاجن کی تجوری میں منتقل ہو جا تا اور بد نصیبی کے سائے ساتھ ساتھ رہتے ۔ یہ معاشی اور اقتصادی بدحالی جس نے اسے سماجی ابتری اور زوال کا نشانہ بنا رکھا تھا کسی المیہ سے کم نہ تھی۔ طرفہ تماشا یہ کہ ان کسانوں کی بے کسی مظلومی اور بے چارگی کے باوجود بعض سیاسی جماعتیں جن میں انڈین نیشنل کانگرس سرفہرست تھی ساہوکاروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ میں مصروف تھیں ۔ ان حالات میں سردار سکندر حیات کی یونینسٹ وزارت نے زمینداروں کی زبوں حالی کو محسوس کرتے ہوئے ان کی خوشحالی کے کچھ تعمیری پروگرام مرتب کئے۔ ساہوکاروں اور بنیوں کے بے پناہ مظالم اور حرص و ہوا کے بڑھتے ہوئے سیلاب کی روک تھام اور کسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے پنجاب اسمبلی میں جو بل پاس ہوئے انھیں ملک کے طول و عرض میں خصوصی طور پر سراہا گیا۔ ان اقدامات کا مقصد کسانوں کی سماجی ترقی اور معاشی نجات تھا۔ گو غیر مالک زرعی مزدوروں کو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا تاہم ان حالات میں اس طرح کی اصلاحات بھی صدیوں کے پس ماندہ زرعی معاشرہ کے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھیں۔ زرعی اجناس کی صحیح قیمت کے تعین اور زمینداروں اور کاشتکاروں کو آڑھتی حضرات کی دستبرد سے بچانے کے لئے جب مارکیٹنگ بل پاس ہوا تو یاد خدا میں اس کارنامے کا اعتراف کرتے ہوئے عہد سکندری کو غریبوں محتاجوں، زمینداروں اور کاشتکاروں کے لئے عہد زریں قرار دیا گیا۔ یاد خدا کے مطابق ان زرعی قوانین نے بے چارے کسانوں کی مردہ ہڈیوں میں گو یا زندگی کی نئی لہر دوڑا دی اور انھیں ساہوکاروں کے پنجے سے نجات دلا کر ان کے ناتواں کندھوں کو صدیوں کے قرض کے بوجھ سے آزاد کر دیا۔ ان اصلاحات سے جہاں بے گار جیسی قبیح رسم پر کاری ضرب پڑی وہیں ان بے آواز کسانوں کی مدتوں کی کھوئی ہوئی اراضی واپس ملنا شروع ہوگئی۔ یہ گویا پہلی دستک تھی جس نے غریب کسانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنا شروع کیا۔ ماضی کے ظلم وستم اور استحصالی نظام کے بطن سے نیا سورج طلوع ہوتے دیکھ کر زمینداروں کو مخاطب کرتے ہوئے شاعر یاد خدا کہتا ہے:
اٹھ دیکھ ذرا اپنا اجڑتا ہوا گھر بار
در ہی کوئی باقی ہے نہ اس کی کوئی دیوار
اے تو کہ ہے تقدیر کے پنجے میں گرفتار
بیدار ہو بیدار جو بیدار ہو بیدار
اے خفتہ زمیندار
اٹھ دیکھ زمانے میں نیا رنگ جما ہے
کچھ سوچ یہ کیا بات ہے کیا رنگ جما ہے
صحرا بھی نظر آتے ہیں سب روکش گلزار
اے خفتہ زمیندار
بیدار ہو بیدار ہو بیدار ہو بیدار
بیداری کی اس لہر نے جہاں زمیندار میں اپنی قوت کا شعور پیدا کیا د میں ساہوکارانہ اور جاگیردارانہ نظام کی گرفت بھی ڈھیلی پڑنے لگی۔ پسے ہوئے کسانوں کے لبوں پر شبت ، مہر سکوت ٹوٹی اور یاد خدا کے توسط
سے پنجاب بھر میں چرخ چنیوٹی کا یہ نعرہ مستانہ گونجنے لگا۔
نہ پنجاب میں چرخ اب بس سکیں گے
یہ زار دار بنے یہ خوں خوار بنے
پنجاب کے وزیر ترقیات سرچھوٹو رام نے زمینداروں اور کسانوں کے لئے جو خدمات سرانجام دیں اور جس طرح انھیں سود اور بیاج کے عفریت سے نجات دلائی اس کی بناء پر پنجاب بھر میں انھیں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ انھوں نے پنجاب اسمبلی میں اور اسمبلی سے باہر کسی مرد آہن کی طرح زمینداروں کی حمایت میں کانگرسی اور مہا سبھائی ممبران اسمبلی کا جس طرح مقابلہ کیا وہ پنجاب کی پارلیمانی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سر چھوٹو رام نے چنیوٹ کا دورہ کیا تو اہلیان چنیوٹ نے ان کے استقبال میں دیدہ و دل فرش راہ کر دیئے اور نذیر مجیدی مدیر معاون یا خندان غریب دہقانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان الفاظ سے ان کا خیر مقدم کیا:
خدا کے لطف و کرم کا پیام آیا ہے
یہ خوب ساقی محشر خرام آیا ہے
نوائے عیش لئے فیض عام آیا ہے
کہ جس کے آتے ہی گردش میں جام آیا ہے
وزیر مال سا عالی مقام آیا ہے
زہے نصیب کہ سر چھوٹو رام آیا ہے
میرے وطن کی زمیں آج گل بداماں ہے
ہر ایک فرط مسرت سے آج شاداں ہے
جدھر نگاہ اٹھاؤ خوشی کا ساماں ہے
پیام عیش زمانے کے نام آیا ہے
وزیر مال سا عالی مقام آیا ہے
زہے نصیب کہ سر چھوٹو رام کیا ہے
زہے نصیب کہ دہقاں کا غمگسار آیا
بہار بن کے محبت کا راز دار آیا
یہ بن کے قوم کا اک ننگ و نام آیا ہے
وزیر مال سا عالی مقام آیا ہے
زہے نصیب کہ سر چھوٹو رام آیا ہے
زمینداروں اور دہقانوں کے لئے یا دخدا کی یہ جد و جہد اس پہلو سے اور بھی زیادہ قابل ستایش ہے کہ اس کی مجلس ادارت میں کوئی بھی شخص براہ راست اس طبقہ سے تعلق نہ رکھتا تھا۔ طبقاتی وابستگیوں سے بلند ہو کر اجتماعی بھلائی اور بہبود کے لئے آواز بلند کر کے ان افراد نے نہ صرف اپنی ترقی پسندانہ سوچ کا اظہار کیا بل کہ ایک قابل تقلید مثال بھی قائم کی ۔ یہ کوشش محض اقتصادی اور معاشی بحالی کی خاطر ہی نہیں بل کہ دیگر سماجی خرابیوں اور معاشرتی معاملات کو سدھارنے کے لئے بھی تھی جنھوں نے اس ملک کی غالب اکثریت کو کولہو کے بیل کی طرح لکیر کا فقیر بنا کر ان کی ترقی کی راہیں مسدود کر دی تھیں۔ اس ضمن میں لکھے گئے تمام اصلاحی اور معاشرتی مضامین کا ایک نمایاں وصف ان کا مزاحیہ انداز ہے۔ بلدیہ کے مسائل سے لے کر معاشرتی اصلاح اور دیگر اہم ترین قومی امور تک ہر موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے شنکلی و برجستگی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پاتا۔ مزاح کے اس انداز کی بدولت تحریروں کے مجموعی تاثر میں نمایاں اضافہ ہوتا۔ جس بات کو عام فہم انداز میں کہنے سے بدمزگی کے جنم لینے کا اندیشہ رہتا اسے ان تحریروں میں ہلکے پھلکے انداز میں پیش کر کے کئی ایک مشکل مراحل طے کئے گئے ۔ معاشرتی اور سماتی مسائل کے اظہار اور ان کے حل کے لئے یہ طریقہ نہایت کارآمد ثابت ہوتا تھا۔ مثلاً ” آدم کے نام خضر کا پہلا خط “ کے عنوان سے نذیر مجیدی اور سیاح چنیوٹی کے مشترکہ قلم سے نکلی ہوئی ایک تحریر تنقید اور اصلاح کے کئی ایک پہلو لئے ہوئے ہے:
” میرے محترم باپ! آپ کو یاد ہوگا جب میری پیاری اماں حوا کو شیطان غلط راستے پر لے جانے میں کام یاب ہوا اور اس نے آپ کو بھی اپنی لغزش میں شامل کر لیا تو خداوند ذوالجلال نے آپ کو جنت سے نکال کر دنیا میں پھینک دیا۔ ہم گھومتے گھامتے ایک ایسے مقام پر آ نکلے تھے جس کو آجکل کی زبان میں لوگ پنجاب میں دریائے چناب کا کنارہ کہتے ہیں ۔ ہم سب یہاں شام کے ڈوبتے ہوئے وقت پہنچے ۔ شفق کا منظر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، روح کو بیدار کرنے والے مناظر وہ دریا کا بہنا، پھر قدرت کے حسن کا مرقع وہ خالق ارض و سما کی عظمت کا مظاہرہ کرنے والی پہاڑیاں۔ یہ سب مناظر دیکھ کر ہم یہاں ٹھیر گئے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہماری اس بستی کا نام ”چندن وٹ مشہور ہو گیا تھا۔ جس کے بے ترتیب مگر صاف مکان اور مضبوط سٹرکیں وغیرہ آپ نہیں بھولے ہوں گے۔ مگر اب آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ وہی شہر کہ اب اس کا نام بگڑتے بگڑتے چنیوٹ رہ گیا ہے۔ آپ کی اولاد کے ہاتھوں سے جو آپ اور آپ کے جانشینوں کو بے وقوف اور نہ جانے کیا کیا کہتی ہے اور خود کو ترقی یافتہ اور مہذب کے ناموں سے منسوب کرتی ہے کچھ کا کچھ ہو گیا ۔ آپ کے زمانے میں یہاں کے باشندے ایک دوسرے پر اپنی جان چھڑکتے تھے مگر اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ پہلے وہ ایک دوسرے کی امداد کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ پہلے ان کی گندگی شہر کے باہر اکٹھی ہوتی تھی ۔ مگر اب گلی کوچوں میں ہر وقت کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے رہتے ہیں۔ پہلے آب رسانی کا کام حاکمان وقت کرتے تھے۔ اب آپ کو معلوم ہے کہ شہر کے منتظمان بالکل کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ آپ کے زمانہ میں روشنی کا بہترین بندوبست ہوتا تھا مگر اب شہر میں رات کو گھپ اندھیرا ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگوں نے اس قدر ترقی کی ہے کہ اب وہ ماں باپ بھائی بہن کی عزت کرنا جانتے ہی نہیں۔ مکانوں کی زیبائش کے لئے یہ لوگ مکانوں کی دیواروں پر ایک دوسرے کو گالیاں لکھتے ہیں۔ یہاں کی سڑکیں اب تک وہ ہیں جو آپ کے زمانے میں تھیں ۔ اب تک ان کی مرمت نہیں کرائی گئی ۔ جس سے جگہ جگہ گڑھے پڑ گئے ہیں۔ ایک سب سے بڑا گڑھا محلہ گڑھا کہلاتا ہے۔ لوگوں نے جن بزرگوں کے ہاتھوں میں شہر کا انتظام دے رکھا ہے وہ بجائے اپنا فرض ادا کرنے کے پارٹی بازی اور دھڑ ا بندی میں مبتلا ہو کر ذاتیات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ یہاں کی عورتیں برقع سر پر رکھ لیا کرتی ہیں لیکن اس کا استعمال بھول چکی ہیں۔ اکثر بازاروں اور گلیوں میں برقعہ سر پر رکھے نقاب اٹھائے گھومتی رہتی ہیں۔ محرم غیر محرم کی تمیز نہیں ہوتی۔ ہاں جب کوئی قریبی رشتہ دار سامنے آ جائے تو یہ گو یا چونک پڑتی ہیں اور جھٹ نقاب منہ پہ ڈال لیتی ہیں ۔ لوگ بجائے مذہبی کاموں اور خدمت خلق میں روپیہ صرف کرنے کے جوئے شراب تاش، ناول اور ایسی ہی دوسری عیاشیوں پر بے دریغ صرف کرتے ہیں۔ شہر کے منتظمین سڑکوں پر پھر کچھوا دیتے ہیں تا کہ لوگ آرام طلب نہ ہو جائیں۔ پبلک کے فنڈ کا اس بے دردی سے اصراف کیا جاتا ہے کہ خون کے آنسو رونے کو جی چاہتا ہے۔ پبلک کی فریادیں صدا بصحر اثابت ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ غرضیکہ کیا کیا لکھوں کہ آپ کی اولاد کا کیا حال ہے۔ میں خود ان کی یہ حالت دیکھ کر رو رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ آپ کو یہ سب کچھ پڑھ کر صدمہ ہوگا۔ مگر یہ حقیقت ہے گرچہ تلخ حقیقت” (یاد خدا 11 مارچ 1943ء) اس طرح کی بہت سی تحریریں اور مضامین یاد خدا میں شامل ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقامی سطح پر صورت حال کی اصلاح اور بہتری کی کوشش بھی اس کے اہداف میں شامل تھی۔ انسان بسا اوقات ستاروں پر کمند ڈالنے کے شوق میں اپنے ماحول کو پس پشت ڈال دیتا ہے یا سورج کی شعاعوں کو گرفت میں لانے کی آرزو میں اپنی دنیا کو بھول جاتا ہے لیکن یاد خدا نے عزائم کی بلندی اور شوق پرواز کے باوجود اپنے قدم اسی دنیا میں جمائے رکھے اور یہاں کے دکھ درد کی دوا ڈھونڈ نا اپنا شعار سمجھا۔
2.6 مقامی مسائل کا تذکرہ :
یاد خدا کے موضوعات میں بتدریج تبدیلی رونما ہوتی رہی۔ دراصل یہ اخبار معاشرے میں موجود ہر طرح کے عوامل اور رجحانات کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کسی باریک بین مبصر کی طرح زندگی کا کوئی پہلو اس سے اوجھل نہیں تھا۔ ملکی اور قومی مسائل کے ساتھ ساتھ شہری اور بلدیاتی مسائل اس کی توجہ کا خصوصی مظہر تھے۔ بلد یہ چنیوٹ جو گزشتہ صدی کے اواخر میں وجود میں آئی اکثر و بیش تر اس کی تنقید کا نشانہ بنتی تھیں۔ شہر کے کوچہ و بازار میں صفائی کا فقدان، تعمیراتی کاموں سے بے توجہی، حفظانِ صحت کے اصولوں سے بے نیازی اور رات ڈھلے گلیوں میں تاریکی جیسے عنوانات یاد خدا کے صفحات میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ادار ہوں اور مضامین میں میونسپل کمشنروں کا احتساب بھی ہوتا تھا اور بلدیہ کے اہلکاران کی ناقص کارکردگی کا تجزیہ بھی کیا جاتا تھا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عزیز علی اور نذیر جیدی کی تحریروں میں گھن گھرج کے ساتھ ساتھ طنزیہ اور تمسخرانہ انداز ایک منفر در نگ پیدا کر دیتا تھا۔ یہ بھی دراصل اقتدار اور ریاستی ڈھانچے سے کش مکش کا ایک انداز تھا۔ بلدیہ کی ناقص کارگزاری جب ہر حد عبور کر گئی تو یاد خدا کو ایک میونسپل کمیٹی نمبر نکالنا پڑا جس میں لگی لپٹی رکھے بغیر تمام صورت حال کو بے لاگ طریقہ سے منظر عام پر لایا گیا۔ اس نمبر میں شیخ عبدالرحیم مگوں پبلک پراسیکوٹر فیروز پور جو یا خدا کو اکثر وبیش تر اپنی سنجیدہ تحریروں سے نوازتے تھے یوں رقم طراز ہیں:
چنیوٹ میونسپلٹی کی پبلک خدمات کا کم از کم گزشتہ چالیس سال کا ریکارڈ ہمارے سامنے ہے۔ خدا کے لئے بتایا جائے کہ اس میں کون سی چیز ہے جو چنیوٹ میونسپلٹی کے لئے باعث فخر ہو اور جس کو بطور چراغ ہدایت موجودہ ممبران کے سامنے رکھا جا سکے۔ شہر کی صفائی کی یہ حالت ہے کہ اس سے گندگی پناہ مانگتی ہے۔ روشنی ایسی ہے کہ اس پر ہزاروں تاریکیاں قربان ہوتی ہیں۔ سڑکوں اور فرشوں کی حالت یہ ہے کہ ان پر سے گزرنے والے بوڑھے بچے اور عور تیں تو ایک طرف اچھے خاصے تنومند آدمی بھی میونسپل سٹاف اور ممبران کمیٹی کو وہ دعائیں سناتے گزرتے ہیں کہ کنگرہ عرش بھی ہل جائے مگر ہمارے ممبر حضرات خدا کے فضل سے اثر پروف بھی ہیں اور دعا پروف بھی۔
(یاد خدا 4 ستمبر 1942ء)
خدا آباد رکھے کیا عجب اپنی کمیٹی ہے“ کے نام سے شائع ہونے والی نظم بلدیہ کی کارکردگی کی منہ بولتی
تصویر ہے۔
خدا آبا در کھے کیا عجب اپنی کمیٹی ہے!
O
استہ نجاست یوں رگوں میں اس کی بہتی ہے
کہ بیٹی روٹھ کر جس طرح ماں کے پاس رہتی ہے
یہاں کے جو ہڑوں اور نالیوں میں جو بھی پانی ہے
جناب نوح کے طوفان کی باقی نشانی ہے
. جراثیم اس جگہ گھن کی طرح لوگوں کو کھاتے ہیں
اکٹر کر ڈاکٹر کو دور سے آنکھیں دکھاتے ہیں
یہاں آوارہ کتے اور چوہے تن کے رہتے ہیں
نہالانِ چمن جوں بیچ میں گلشن کے رہتے ہیں
یہاں کونین مٹی اور آیوڈین "پانی” ہے
یہاں بیمار رہنا صحت ، اور پیری جوانی ہے
سل و دق ہیضہ و طاعون کی فرمانروائی ہے
خدا کے فضل سے یاں پر صفائی کی صفائی ہے
خیال آتے ہی چلنے کا جہاں سینوں میں دل دھڑ کیں
زمانے بھر میں ہیں مشہور وہ چنیوٹ کی سڑکیں
رکھی کسی شخص نے اور کسی گھڑی بنیاد سڑکوں کی
نہیں ہے ریختی کو بھی کہانی یاد سڑکوں کی
یہاں کی روشنی جس پر اندھیرا ناز کرتا ہے
زبان حال سے چوروں کو ہم آواز کرتا ہے
اگر چہ لیمپ میں نا چار بیتی پھانس لیتی ہے
جو آئیں چاندنی راتیں تو سکھ کا سانس لیتی ہے
بھلا کیا تاب جو بتی کو آکر تیل بھی چھولے
وہ ان کی روشنی جس میں خضر بھی راستہ بھولے
مسافر سے سر بازار جھگڑا مول لیتے ہیں
بلا خدمت کئے ہر ایک سے محصول لیتے ہیں
جب داستاں اجلاس کی ہم کو سناتا ہے
تو بندر اور دو بلیوں کا قصہ یاد آتا ہے
ہمارے فائدے کو لوگ واں آپس میں لڑتے ہیں
بنا ہوتی ہے ذاتی قوم کی خاطر جھگڑتے ہیں
کوئی کہتا ہے واں نالی نہیں ہر گز بناؤں گا
نہ جب تک خوب جی بھر بھر کے میں تجھ کو ستاؤں گا
ادھر ارشاد ہوتا ہے "ترا چھجا گراؤں گا
تو جب آرام سے کھانا کہیں گھر جا کے کھاؤں گا“
کہیں یہ فکر ہے بس قوم کی بگڑی بنا رکھئے
اور ان دو چار غداروں کو ساتھ اپنے ملا رکھئے
ادھر یہ ہٹ کہ چاہے قوم کا نقصان ہو جائے
مگر اک بار زک دینا انھیں آسان ہو جائے
نہیں اجلاس یہ دراصل اک ٹھاکر دوارہ ہے
جہاں یہ بت ہمارا ہے جہاں وہ بت تمھارا ہے
خدا جانے یہاں ہے کون ان کا باندھنے والا
پہ مال مفت دل بے رحم کی ہے اک گئو شالہ
وراثت کا چلن ہے اور شخصیت پرستی ہے
حقیقت میں کسی کو ایک مدت سے ترستی ہے
یہاں محصول بھی قانون کے بل پر ڈکیتی ہے
خدا آباد رکھے کیا عجب اپنی کمیٹی ہے
(نصرت بخاری 4 ستمبر 1942 ء )
مجلس احرار کانگرس کے رضا کاروں اور عام لوگوں کی جانب سے بلدیہ کی مذمت میں جو جلوس نکالا گیا
اس کی روداد نامہ نگار یاد خدا کی زبان سے سنیے :
چنیوٹ شہر غلاظت اور گندگی کی وجہ سے مشہور زمانہ ہے۔ اور اس کی طرف سے میونسپلٹی کی مجرمانہ بے اعتنائی بھی ایک پرانا روگ ہے۔ اس لا پرواہی کا نتیجہ آج ہیضہ کی صورت میں نمودار ہے ۔ شہر ویران ہوا جاتا ہے۔ ایک ایک دن میں چار چار پانچ پانچ اموات ہیضہ سے ہو جاتی ہیں۔ مورخہ 12 اگست کو شہر کی ہندو مسلم پبلک نے تنگ آکر اراکین میونسپلٹی کی اس طرف توجہ دلانے کے لئے ایک جلوس نکالا جس کے آگے آگے ایک سیاہ گدھی تھی ۔ گدھی کے سر پر ہیٹ پہنایا گیا اور میٹ پر میونسیٹی چنیوٹ تحریر کیا گیا تھا۔ گدھی کی دم پر ایک ماٹو بندھا ہوا تھا جس پر بلیک مارکیٹ لکھا تھا۔ مقامی مجلس احرار اسلام چنیوٹ اور کانگرس کے رضا کار پیش پیش تھے اور کئی ایک کے سر پر ٹوکریاں تھیں ۔ آگے آگے ہی میونسپلٹی صاحبہ شہر میں گشت کر رہی تھیں اور پیچھے پیچھے پبلک کا بے پناہ ہجوم تھا اور میونسپلٹی چنیوٹ کو دعائیں دیتا ہوا بازاروں وگلیوں کی صفائی کرتا ہوا جارہا تھا۔ جلوس میں بہت سے معززین شہر بھی شامل تھے جو اپنے ہاتھوں میں جھاڑو لے کر صفائی کر رہے تھے ۔ جلوس نے سارے شہر میں گشت لگائی اور گلیوں و بازاروں کا کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے ٹوکریوں میں اٹھایا۔
خاص کر جب یہ جلوس میونسپلٹی سمیت کسی میونسپل کمشنر کے ڈیرہ پر پہنچتا تو اہل جلوس میں صفائی کرنے کی ایک برقی لہر دوڑ جاتی اور جھاڑ ووں والے اس جوش و خروش سے جھاڑو پھیرتے کہ ان کو اپنے تن بدن کی ہوش بھی نہ رہتی اور اچھا خاصا میدان کارزار کا منظر نظر آتا تھا۔ بالآخر یہ جلوس سارے شہر کا چکر کاٹ کر منتشر ہو گیا۔ بی میونسپلٹی کے گشت کے بعد بڑے بازار میں ایک مزار دیکھنے میں آیا۔ جس پر ایک جھنڈا لہرا رہا تھا۔ جھنڈے پر میونسپلٹی چنیوٹ“ لکھا ہوا تھا اور مزار شریف پر دیا جل رہا تھا۔ ارد گرد فاتحہ خوانوں نے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے اور درود پڑھ پڑھ کر بی میونسالی چنیوٹ کو ثواب پہنچا رہے تھے۔
(نامہ نگار ) نذیر مجیدی نے اپنے اکثر کالموں میں بلدیہ کی کارکردگی پر قلم اٹھایا اور صورت حال کی عکاسی بڑے ہلکے پھلکے خوش کن انداز میں کی ۔ شہر میں روشنی کی کام یابی کے متعلق رقم طراز ہیں:
روشنی کو لیجے تو وہی پرانی طرز کے لیمپ ہیں جن کی روشنی کا یہ عالم ہے کہ چار قدم سے آگے تک نہیں جاسکتی۔ اس میں بیش تر ایسے مواقع پر نصب ہیں جہاں پر یا تو کسی ممبر کا مکان ہے یا ڈیرہ یا مبر صاحب کی آمد و رفت کا راستہ ہے۔ پبلک کے آرام کے لئے جو لیمپ ہیں ان کا شمار نہایت ہی محدود ہے اور ان کے روشن کرنے کا طریقہ نہایت عجیب ہے ۔ وہ یوں کہ ٹھیکیدار ایک طرف سے روشن کرنا شروع کرتا ہے جب سب روشن ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف سے بجھانا شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تک سب گل کر کے وہ اپنا کام ختم کر کے تسلی سے سو جاتا ہے ۔ تا کہ تیل کم خرچ ہو اور وہ زیادہ زیر بار ہو کر ٹھیکے میں نقصان نہ برداشت کرتا پھرے”۔
(یاد خدا 5 ستمبر 1941ء)