محبت دینے والوں سے محبت ہو ہی جاتی ہے
اگر دل میں مروت ہو عنایت ہو ہی جاتی ہے
اگر حسن وفا میں کچھ جفا کا رنگ شامل ہو
خطا کاروں سے بالآخر شکایت ہو ہی جاتی ہے
انا کا قہر ہو یا وسوسوں کا زہر قاتل ہو
دلوں میں جب اُتر جائے عداوت ہو ہی جاتی ہے
نہ شکوہ سنج ہو گرگٹ کی نیرنگی سے اے ناداں
کہ ابن الوقت لوگوں سے سیاست ہو ہی جاتی ہے
اے یاد یار ! مت بہلا مجھے اس خواب طفلاں سے
شب ہجراں کی بھی صبح قیامت ہو ہی جاتی ہے
ببول راہ بھی احسان کرتے ہیں مسافر پر
کبھی خار مغیلاں کی ضرورت ہو ہی جاتی ہے
خدا کا شکر ہے راہی کہ اس پیرانہ سالی میں
مرے بالغ نظر دل سے شرارت ہو ہی جاتی ہے