کھولیں گے نہیں قفل نہ پہچان کریں گے
ہم دور سے اندازہ ء زندان کریں گے
سیٹی سےبلالیں گے پرندوں کو زمیں پر
مینار ترے شہر کے ویران کریں گے
صحرا میں اتاریں گے سفینے مرےملاح
دریا ترے پانی کو پریشان کریں گے
اک بار فقط اذنِ ملاقات عطا ہو
پھروصل کی خواہش نہ مری جان کریں
بچے ہیں یہ بروقت اگر باز نہ آئے
اک روز محبت کابھی نقصان کریں گے
اس طرزِہنرمندی سےہم اسکو چھوئیں گے
پتھر بھی اگر ہے اُسےمرجان کریں گے