پھر ہجر، ذات، رات، سپردِ خدا کیے
لِکھ کر، سبھی نُکات سپردِ خدا کیے
دنیا کے منصفوں پہ بھروسہ نہیں مجھے
میں نے معاملات سپردِ خدا کیے
کر سکتا تھا معاف میں ، جتنا ، سو کر دیا
شکوے، بقایا جات، سپردِ خدا کیے
بڑھ کر گلے لگاتا ہوں روتے ہوۓ کو میں
فرقے، یہ ذات پات، سپردِ خدا کیے