ہم مر گۓ کسی پہ میاں اس یقین میں
پھرتے ہیں آسمان کئی اس زمین میں
آٹے کی اک قطار میں سب لگ گۓ یہاں
مغرب کے تجربات نے جاں بھر دی ٹین میں
اقبال تب سے آپ کے شاہین مر گۓ
جب سے یہ گُم ہوۓ ہیں کسی مہ جبین میں
چالاک، بے وفا بھی، مطلب پرست بھی
یہ خوبیاں تو ہوں گی میاں اک ذہین میں
اب بن گۓ ہیں شہر کے جو معتبر بڑے
کل تک شمار تھے وہ سبھی کمترین میں
اپنی ہی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائ، پھر
سب نے اضافے کر دیے مرضی کے، دین میں