اتنی قوت مل گئ ہے مجھ کو اپنی ہار سے
میں بھی لڑنے لگ گیا ہوں وقت کی رفتار سے
پھول کی صحبت نے مجھ کو غمزدہ سا کر دیا
میں نے بھی یاری لگا لی چپکے چپکے خار سے
سر کو سجدے میں کٹا کے گھر لٹا دیتے ہیں یہ
مومنوں کو ڈر نہیں لگتا ہے تختہ دار سے
آسماں چھونے کے سارے خواب کامل ہو گۓ
میں نے چومے تھے فقط اماں کے پاؤں پیار سے
کب تلک فرقوں میں بٹنا بند ہوں گے ہم سبھی
پوچھتے ہم کیوں نہیں ہیں قوم کے معمار سے
رات بھر ذیشان دل کو میں یہ سمجھاتا رہا
وہ تجھے ملنے نہیں آۓ گا دریا پار سے