تجھ کو سنا رہا ہوں جو روداد کچھ نہیں؟
اجڑا ہوا ہے دل یہاں آباد کچھ نہیں
اک خواب دیکھتا ہوں ترا روز رات کو
کیا دیکھتا ہوں یار مجھے یاد کچھ نہیں
کرب و بلا کے دشت سے ہم کو سبق ملا
رستہ رہِ وفا ہو تو تعداد کچھ نہیں
بلبل ہوئی ہے قید تو پھر چیخنے لگی
پہلے جو ہنس کے کہتی تھی صیّاد کچھ نہیں
دنیا، فضا، یہ حسن، مری ذات ہو کہ میں
اتنا مجھے پتہ ہے ترے بعد کچھ نہیں