ذیشان منظور (غزل)

شدت سے اک فقیر اٹھے، ناچنے لگے

ذیشان منظور

شدت سے اک فقیر اٹھے، ناچنے لگے
دل بھی کسی کی یاد میں یوں ڈولنے لگے

گھوڑے گدھے کا فرق تو واضح کرو نہ یار
تم سب کو اک ترازو میں ہی تولنے لگے

اک تو ہے دور بھاگتا ہے میرے نام سے
اک ہم ہیں صبح و شام تجھے سوچنے لگے

دشمن رقیب ان دنوں چھٹی پہ ہیں میاں
تمام راز یار مرے کھولنے لگے

ہاتھوں پہ ہاتھ رکھ لیا، کچھ بھی نہیں کیا
یوں لوگ پھر نصیب کو ہی کوسنے لگے

وہ بد نصیب پیڑ ہوں میں جس کی چھاؤں میں
بچے جواں ہوۓ تو جڑیں کاٹنے لگے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com