اس پر یقین ہے مجھے بڑھ کر یقین سے
کے جڑ گیا ہے شخص وہ دل کی زمین سے
دشمن کو کوستا تھا میں کے پھر پتہ چلا
نکلے ہیں سانپ سارے مری آستین سے
تیری جبین چوم کے مجھ پر ہے یہ کھلا
پھوٹا ہو جیسے عشق بھی تیری جبین سے
حد ہے ابھی بھی آپ وضاحت ہیں کر رہے
یہ چاند بھی حسیں نہیں میرے حسین سے
مجھ کو سرائیکی سے بڑا عشق ہے میاں
یعنی کہ مجھ کو عشق ہے اپنی زمین سے
پلنے لگا ہے کان میں نفرت کا ایک بول
ملا کی بن نا پائ ہے اللہ کے دین سے