جو آے اس خرابے میں صنم آہستہ آہستہ
ہوے جاتے ہیں سب کے سر قلم آہستہ آہستہ
یہاں پر خون کے رشتے بھی آخر چھوڑ جاتے ہیں
چلاجاتا ہے دریاوں سے نم آہستہ آہستہ
تمہیں یکلخت کیسے چاہ سکتا ہوں ذرا سوچو
زمیں سے پیڑ لیتا ہے جنم آہستہ آہستہ
سو اب جاکر یہ چہرہ ہو گیا ہے دید کے قابل
ترے صدمے کیے ہیں خود میں ضم آہستہ آہستہ
مرے چاروں طرف میلہ ہے اور یہ دل اکیلا