جو حیرتوں کے مظاہر کھلے تو در نکلے
زمین کھودی گئی تو ہزاروں گھر نکلے
بلا جواز میں گھر سے کبھی نہیں نکلا
نکل پڑوں گا مگر شرط ہے سفر نکلے
وہ جس کی باتوں سے معصومیت ٹپکتی تھی
سنا ہے شہر میں جاتے ہی اس کے پر نکلے
میں وسوسوں میں گِھرا زائچے بناتا ہوں
دعا کرو کہ بچھڑنے کا دل سے ڈر نکلے
وفورِ شو قِ تمنا بھی ہار جا تا ہے
بھنور گزار کے آگے جو پھر بھنور نکلے