نگاہِ غیر میں کم مائیگی میسر ہے
برائے زیست جسے دل لگی میسر ہے
ہماری آنکھ سے آنسو ابل پڑے اس دم
کسی نے پوچھا تھا ہم سے خوشی میسر ہے
ان آنکھ والوں سے اندھوں کو معتبر سمجھو
درون ِ دل کی جنہیں روشنی میسر ہے
زمانے بھر کے دکھوں کا علاج ہے پیارے
اسے کیا غم ہو جسے دوستی میسر ہے
میں سوچتا ہوں بچھڑ کر مرا بنے گا کیا
تمہیں تو خیر مری شا عری میسر ہے
ترے جمال کی خوشبو میں مست رہتے ہیں
خوشا نصیب کہ تیر ی گلی میسر ہے
تمہارے ہجر کے لمحوں کو سال کرتے ہیں
کچھ اس طرح سے ہمیں بے کلی میسر ہے