جنت کا اک نظارہ ہے جو بود و ہست ہے
پی کر تماری آنکھ سے ہر کوئی مست ہے
زنداں میں تیری شکل کا بندہ ہے میرے ساتھ
یہ قید بھی میرے لیے چودہ اگست ہے
دن کو جو خواب دیکھنے نکلے ہو میرے دوست
اتنا بتاو رات کا بھی بندوبست ہے ۔۔۔۔۔؟
رکھا ہے جس نے بے امان عمر بھر مجھے
اب میرے کاغذوں میں وہی سرپرست ہے
اک عمر دشتِ دامنِ صحرا میں کاٹ دی
ہر اک قدم جہاں پہ مجھے ایک جست ہے
جس سمت دیکھتا ہوں وہاں تو دکھائی دے
مجھ پر تو آج تک وہی یومِ الست ہے