کیا تھا عہد نبھانے میں دیر ہو گئی ہے
کسی کو کال اٹھانے میں دیر ہوگئی ہے
وہ بات جس کا تمہیں انتظار تھا برسوں
وہ بات تم کو سنانے میں دیر ہوگئی ہے
کچھ اس لیے بھی تیرے ساتھ چل نہیں پایا
گرے ہوؤں کو اٹھانے میں دیر ہوگئی ہے
کسی نے ہاتھ چھڑانے میں جلد بازی کی
کسی سے ہاتھ چھڑانے میں دیر ہو گئی ہے
خطا معاف سکینہ! کہ ابنِ حیدر کو
تمہاری پیاس بجھانے میں دیر ہو گئی ہے