یہ کارِ زیاں جچتا نہیں دیدہ وروں پر
پاگل ہیں جو اتراتے ہیں بے کار غموں پر
تب سے ہے خفا جیسے مری ذات سے تتلی
اک شعر کہا تھا کبھی جگنو کے پروں پر
اس واسطے دھڑکن میں توازن نہیں باقی
اترا ہے صحیفہ ترے شہکار لبوں پر
آنکھیں ہیں کھلی پھر بھی نہیں دکھتا وہ چہرہ
کس کا ہے اثر دونوں طرف دونوں دلوں پر
کیونکر بھلا اتریں گی بلائیں کسی گھر میں
غازی کا علم سب نے لگایا ہے چھتوں پر
مرضی ہے اُدھورا جسے پورا وہ بنائیں
مامور نہیں کوئی میاں کوزہ گروں پر