کارِ فسوں میں گم ہے بشر کائنات کا
مہنگا پڑا ہے سب کو سفر کائنات کا
نکلیں گے حسرتوں کے جنازے زمین سے
جب بھی کریں گے چاک جگر کائنات کا
مسکن وہیں میں بناتا میں سدرہ کے آس پاس
ادراک مجھ کو ہوتا اگر کائنات کا
اک بار مجھ کو اذنِ الہی ملے تو میں
نقشہ بناوں بارِ دگر کائنات کا
کھلتا ہے عرشیوں کو دکھانے کے واسطے
دو تین بار دن میں یہ در کائنات کا
کیسے گذار لیتے ہیں صدیاں یہاں پہ لوگ
ہر شب مجھے نگلتا ہے گھر کائنات ک