ڈبونے والے نے جس پل یہ منصوبہ بنایا تھا
بچانے والے نے فوراً وہاں تنکا بنایا تھا
مرے محبوب قسمت میں نہیں لکھے تھے ہم ورنہ
مری ماں نے تمہارے واسطے لہنگا بنایا تھا
مجسمہ ساز نے جس دن نئے سانچے بنائے تھے
میں اس سے دو قدم آگے تھا اور تیشہ بنایا تھا
بنانے والے نے سوہنی مقدر کی لکیروں میں
یقیں پکا بنا تھا ، گھڑا کچا بنایا تھا
نجانے کیوں درندوں کے قدم پر چل پڑے ہو تم
خدا نے تو تمہیں انسان کا بچہ بنایا تھا
ہمارے درمیاں نوشاد پھر کیکر نکل آئے
بڑی مشکل سے جنگل کاٹ کے رستہ بنایا تھا