ایک مدت بعد گزرا ہوں تمہارے شہر سے
رونقیں ویسی کی ویسی ہیں ابھی تک خیر سے
یہ جو سبزہ سا اگا رہتا ہے اس صحرا کے بیج
اس جگہ پر خون ٹپکا تھا پُنل کے پیر سے
کر تو بیٹھا ہے محبت اک پری سے اور اب
ڈر رہا ہے خاک زادہ آسماں کے قہر سے
کہہ رہا تھا اب مری کوئی ضرورت بھی نہیں
مر رہا تھا سانپ اک دن آدمی کے زہر سے
کس طرح گزرے گی تیری عشق کے طوفان میں
ڈر گیا تو تو سمندر کی رواجی لہر سے