تمہاری قید سے باہر اگر نکل آئے
رہائی کوسے گی! کیا سوچ کر نکل آئے
یہ اس کے لمس کی توقیر تھی یا کیا تھا مگر
وہ آ رہا تھا تو دستک کو در نکل آئے
مسافروں کی ہے فطرت میں سوچنا سرِ شام
یہ رات کاٹ کے ممکن ہے گھر نکل آئے
حریف پر بھی جو ترکش سے نا نکلتے تھے
تمہارے تیر مجھے دیکھ کر نکل آئے
کچھ اس طرح کا تعلق رہا پرندوں سے
کہ ان کے بعد درختوں کے پر نکل آئے