میں سانس لیتے ضعیف جسموں میں رہ چکا ہوں
میں حادثہ ہوں اداس لوگوں میں رہ چکا ہوں
قدیم نسلوں کے گھر نحوست کا دیوتا تھا
جدید نسلوں کے زرد کمروں میں رہ چکا ہوں
میں نیم مردہ اسیر انساں کا قہقہہ ہوں
میں سرخ اینٹوں کے خونی پنجروں میں رہ چکا ہوں
میں ایسا سر ہوں جو دشت غربت میں کٹ گیا تھا
میں سر بریدہ شہید لاشوں میں رہ چکا ہوں
میں راجا گدھ ہوں نہ دشت زادہ نہ ماس خورہ
میں پھر بھی بستی کے مردہ خوروں میں رہ چکا ہوں
میں اسم اعظم کا معجزہ ہوں میں ناخدا ہوں
میں چاند تاروں میں اور غاروں میں رہ چکا ہوں
یقین جانو یہ میرے بالوں میں گرد دیکھو
میں شہر والا تمہارے گاؤں میں رہ چکا ہوں
میں یوم عاشور تشنگی کا سراب بن کر
خلیل زادوں کے خالی کوزوں میں رہ چکا ہوں