وہ فیض پڑھ لے تو ایک ہی بات سوچتی ہے
کسی پہ مرنے کا نام دراصل زندگی ہے
ہمارا بستر کسی کی خوشبو سے دم بخود ہے
ہمارے کمرے میں ایک مدت سے روشنی ہے
جنابِ ثروت کی نظم "چاہت” کو پڑھ رہا ہوں
تمہارے گاؤں سے ریل گاڑی گزر رہی ہے
اسی فقیرن کے عشق میں جاں بلب ہوا ہوں
جو روز ردِ بلا کا تعویذ بھیجتی ہے
ہمارے سینے میں سانس لیتی حسین لڑکی
ہماری پلکوں کی بالکونی سے جھانکتی ہے