میری آنکھوں سے غم چھلکتا ہے
یہ الگ بات کم چھلکتا ہے
کون رویا ہے رات میرے لیے
میرے تکیے سے نم چھلکتا ہے
ساری دنیا کرے گا وہ سیراب
میری باری پہ کم چھلکتا ہے
مجھکو برتن میں بھر لیا اسنے
جب اٹھاتا ہے دم چھلکتا ہے
وہ مرے شعر گنگناتا ہے
اور اس کا ردھم چھلکتا ہے
تیری ہر بات طعنہ لگتی ہے
تیرے لفظوں سے سم چھلکتا ہے
آج اٹھایا ہوا ہے جام اس نے
آج اس کا بھرم چھلکتا ہے