تم آنکھ میں ہو ! روح کے اندر نہیں آئے
یہ کیسے تم آئے ہو کہ آ کر نہیں آئے
آواز کے برتن کو کئی بار گرایا
کچھ آئے مرے کہنے پہ اکثر نہیں آئے
دونوں کی محبت میں کمی تھی کوئی شاید
میں بُھول گیا اُس کو بھی چکر نہیں آئے
صحرا تو مجھے اور ہی صحرا میں لے آیا
دو دشت ہوئے ختم سمندر نہیں آئے
کھونا کسے کہتے ہیں مجھے بھی تو خبر ہو
اے کاش وہ اس بار پلٹ کر نہیں آئے
دنیا کے ہر اک علم کو ازبر کیا میں نے
پر تم کو بُھلا دینے کے منتر نہیں آئے
افسردہ نہیں زخمی ہوئے پاؤں ہمارے
ہم خوش ہیں تری راہ میں کنکر نہیں آئے
دس سال سے آنکھیں مری رستے میں پڑی ہیں
لیکن وہ کبھی لوٹ کے بھکر نہیں آئے
کاٹا ہے سفر ہم نے غلط راہ پہ ! افسوس
اور اس سے بڑا دکھ کہ پلٹ کر نہیں آئے
ہم گردش تقدیر کے مارے ہوئے کاتب
پھر گردشِ ایّام سے باہر نہیں آئے