سجاد کاتب (غزل)

مجھکو ہنسا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

سجاد کاتبؔ

مجھکو ہنسا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے
میں چہچہا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

مجھکو بلا رہا ہے کوئی فائدہ تو ہے
وہ دور جا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

تاریکیاں خرید کے لایا ہے کس لیے
تُو ‘دیے’ بنا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

بے ساکھیاں نصیب میں آئی ہوئی ہیں آج
میں چل کے آ رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

بھٹکا رہا ہے جو مجھے رستوں سے وہ مجھے
منزل دکھا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

کیوں رو رہا ہے ہاتھ میں کاغذ لیے ہوئے
تُو مسکرا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

تیری کسی بھی بات پہ آمین کیوں کہوں
مجھکو بھلا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

قربان ہو رہا ہے مرے ایک حکم پر
پاگل بنا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

اب ہاتھ چومتا ہے مرے کیا ہوا اسے
آنکھیں دکھا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

جو اہتمامِ جشن میں مصروف ہے وہی
ماتم منا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

جو مجھ کو خواب گاہ میں لایا ہے کھینچ کر
نیندیں چرا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

مشکل بنا رہا ہے مرے سانس لینے میں
دل کی دوا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

آنسو چھپا رہا ہے سرِ بزم وہ مرے
مجھکو رلا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

جو میرے ساتھ ترکِ تعلق پہ خوش ہوا
رشتے بنا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

کاتب جو مجھکو زہر پلانے پہ ہے تلا
میری شفا رہا تھا ابھی کل کی بات ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com