سجاد کاتب (غزل)

مطمئن ہو کے بھی حیرت کو زیادہ پرکھا

سجاد کاتبؔ

مطمئن ہو کے بھی حیرت کو زیادہ پرکھا
ضبط پر ہم نے اذیت کو زیادہ پرکھا

اپنے ہونے کا گماں غیر یقیں ہونے لگا
اس قدر تیری محبت کو زیادہ پرکھا

شدتِ لمس میں احساسِ محبت نہیں تھا
اس لیے قُرب سے خلوت کو زیادہ پرکھا

اس کے نقصان کو یوں دل سے لگا بیٹھا تھا
میں نے اس شخص کی لاگت کو زیادہ پرکھا

زخم سینے کے جو ماتھے پہ عیاں ہونے لگے
میں نے تب ہجر سے ہجرت کو زیادہ پرکھا

میں نے اک ہجر کا تاوان ادا کرنے میں
سست رو ہو کے بھی عجلت کو زیادہ پرکھا

کس نے روکا مری آنکھوں کا بہاؤ کاتب
کس نے آنسو کی مسافت کو زیادہ پرکھا

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com