نہ تری طرف سے عنایتیں نہ تری طرف سے دعا ملی
نہ محبتوں کے صلے ملے نہ مجھے خدا سے جزا ملی
یہ جبیں ترستی رہی مگر ترے ہونٹ اس پہ نہیں کھلے
یہ بدن خمار میں آ گیا اسے گام گام سزا ملی
مری عمر راستے کھا گئے میں بھری جوانی میں گم گیا
نہ ہی منزلوں کے سراغ ہیں نہ ہی آنکھ تجھ سے یہ جا ملی
سبھی رابطے ہوئے ختم یوں نہ وفا رہی نہ جفا رہی
نہ مرا پتہ تجھے مل سکا نہ تری خبر کوئی آ ملی
وہی رات ہے وہی رتجگے میں ادھورے پن کا شکار ہوں
مجھے خواب پورے نہیں دکھے مری نیند غیر کو جا ملی
مری دید راہ پہ رہ گئی ترا انتظار نہیں گیا
مرے زخم تازہ ہی رہ گئے ترے ہاتھ سے نہ دوا ملی
وہ تری نماز کی حالتیں وہ دعا کو ہاتھ اٹھے ہوئے
نہ خزاں کی رات کہیں ڈھلی نہ تری دعا سے ‘عطا ملی’
وہ مرا مزاج نہیں رہا تری بے رخی مجھے کھا گئی
میں تھا سائبانِ وفا مگر مجھے ہر طرف سے جفا ملی
کوئی درد آنکھ میں رک گیا کوئی شخص آنکھ سے بہہ گیا
نہ مری کسی کو صدا گئی ! نہ مجھے کسی کی صدا ملی