نہیں ہے گرچہ خزاں ,پھول دستياب نہیں
لگا دو آگ , جہاں پھول دستياب نہیں
یہ دشت – دل ہے یہاں صرف ریت اگتی ہے
وگرنہ آج کہاں پھول دستياب نہیں
میں سارے شہر کا چکر لگا کے آیا ہوں
کسی جگہ پہ یہاں پھول دستياب نہیں
وہاں تمہاری پزیرائی ہو نہیں سکتی
ادھر نہ جاؤ وہاں پھول دستياب نہیں
گلاب ہونٹ میری سمت چل پڑے تھے سلیم
مجھے یہی تھا گماں پھول دستياب نہیں