جو ایک رخ پہ اکھٹے ہوئے تضاد کے ساتھ.
تو منتشر بھی تو ہونا ہے اتحاد کے ساتھ.
وہ جس کے جانے پہ مرنا مرا ضروری تھا.
میں اس بشر سے بھی بچھڑا ہوں اعتماد کے ساتھ.
تمہاری یاد اکیلی کبھی نہیں آئی.
خدا بھی ہوتا ہے اکثر تمہاری یاد کے ساتھ.
خود اپنے نفس سے لڑنا جہادِاکبر ہے
کسے ہے شوق کہ جنت ملے جہاد کے ساتھ؟
ہم اپنے ساتھ بھی مخلص رہے ہیں کافی دن.
تمہارے اور ہمارے ہیں یار بعد کے ساتھ.
میں داد ملنے پہ ہوتا ہوں مطمئن،لیکن.
کبھی بھی پیٹ نہیں بھر سکا میں داد کے ساتھ
ہمارے خواب تھے اک حادثے کی آنکھوں میں.
ہم اس سفر سے پلٹتے کہاں مفاد کے ساتھ.
میں ایسے دین کا قائل نہیں رہا کاظم.
جو دین پھیل رہا ہے یہاں فساد کے ساتھ.