میں مرگیا ہوں محبت میں کیا نوید نہیں؟
بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں میں شہید نہیں
رلانے والا مجھے دیکھ کر ہے رونے لگا
نہیں نہیں اے خدایا یہ دکھ مزید نہیں
میں ایک پل کی صدی جھیلنے سے قاصر ہوں
یہ وہ صدی ہے کہ جس میں کوئی بھی عید نہیں
میں تیرے بعد نہ رونے کا عہد کرتا ہوں
بدل بھی سکتا ہوں میں مجھ سے کچھ بعید نہیں
ہے زندگی کے لفافے میں خط اذیت کا
اے خوش گمان کوئی خلد کی رسید نہیں
میں اسکے غم کو قصیدے کی شکل دے نہ سکا
یہ بےبسی کی روایت ہے کچھ جدید نہیں
کوئی جو ہاتھ چھڑائے تو کیا گزرتی ہے
یہ ایسا اشک ہے جو آنکھ سے کشید نہیں
تو میرے حال پہ افسردگی کو منہ نہ لگا
ہے درد تیرے بچھڑنے کا پر شدید نہیں
کسی کو آنکھیں بھی میں عطیہ کرنے والا ہوں
میں ایک عمر ہوں رویا مگر مزید نہیں
تعلقات نے کمزور کر دیا مجھکو
میں خودکشی کی سہولت سے مستفید نہیں
یہ میرے کہنے پہ کب جان میری چھوڑے گا
یہ تیرا درد ہے کاظم مرا مرید نہیں