کاظم حسین کاظم (غزل)

بدن کی آنچ سے راحت کشید کرتا ھوا

کاظم حسین کاظم

بدن کی آنچ سے راحت کشید کرتا ھوا
میں اپنے آپ کو اپنا مرید کرتا ھوا

نہ خودکشی اسے کہنا کہ میں اسیر_انا
کسی کے ہجر میں خود کوشہید کرتا ھوا

میں اسکے عکس کو پہلو میں لے کے محو_فغاں
وہ میرے لمس سے گفت و شنید کرتا ھوا

یہ سچ ہے سچ ہے کہ پکڑا گیا ھوں کافی دفعہ
میں آئینے کو طماچہ رسید کرتا ھوا

وہ میری ذات کو محور سمجھ کے گردش میں
میں رخ کے حجرہ_اسود پہ دید کرتا ھوا

ہے گیت گاتا ھوا کون میری میت پر
ہے کون شخص محرم میں عید کرتا ھوا

وہ اپنے طور پہ نفرت کی آبیاری میں
میں سلسلہ_محبت شدید کرتا ھوا

میں کاظمین کی جانب سفر پہ نکلا ھوں
کسی فقیر سے جنت خرید کرتا ھوا

ہے آنکھ ہنستی مرے ھونٹ رو رہے ہیں میاں
میں اپنے کرب کا لہجہ جدید کرتا ھوا

عدو _جاں تو نہیں ہے جنون ہے صاحب
مرے شعور کی مٹی پلید کرتا ھوا

قریب تر میں سمجھتا رہا جسے کاظم
وہ چل پڑا مجھے ماضی بعید کرتا ھوا

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com