کچھ فرض بے دلی کا ادا ہونا چاہیے
اک دوسرے سے ہمکو قضا ہونا چاہیے
میں بے وفا بلاتا ہوں وہ ہنسنے لکتی ہے
اس بات پہ تو اسکو خفا ہونا چاہیے
ہر بات پہ بچھڑنے کے قصے سناتا ہے
میں سوچنے لگا ہوں جدا ہونا چاہیے
سیل فون سے خطوں کی ہوں تصویر کھینچتا
کچھ تو روایتوں میں نیا ہونا چاہیے
میں چاہتا ہوں تیری رسائی ہو رب تلک
تجھکو تو میری ماں کی دعا ہونا چاہیے
قد کی مناسبت سے تو کافی بڑے ہیں لوگ
بندے کو بندگی سے بڑا ہونا چاہیے
کچھ فائلیں شعور کے دفتر سے گم ہوئیں
دیوانگی کو اب تو سزا ہونا چاہیے
میں تم سے پہلے مرنے کی کوشش ہوں کر رہا
یہ کام تو تمہارے سوا،ہونا چاہیے
پھر پھول بھیجنے کی روایت بحال ہو
پیڑؤں پہ پھر سے نام لکھا ہونا چاہیے
میں آدمی ہوں کیسے ہو مجھ سے خدا کا کام
تنہائی جھیلنے کو خدا ہونا چاہیے
ہر آدمی کو علم ہو اچھائی کا یہاں
ہر آدمی کے ساتھ برا ہونا چاہیے
قائل ہے خود خدا بھی فقط ایک عشق کا،
اس سلسلے میں سب کو خدا ہونا چاہیے۔
سوچوں میں اختلاف تو کاظم بجا ہے پر
جسموں کے اختلاف پہ کیا ہوناچاہیے۔؟